Featured

معاشی ترقی میں حائل پاکستان کا نہ ختم ہونے والا سیاسی بُحران

سیاسی استحکام کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب حکومت مضبوط ہو اور پالیسیوں میں تسلسل ہو، تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھتا ہے، جس سے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی بے یقینی کی صورت میں کاروباری ماحول متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ ایک مستحکم سیاسی نظام اداروں کو مضبوط بناتا ہے اور وسائل کے مؤثر استعمال کو یقینی بناتا ہے، جو مجموعی طور پر معیشت کو فروغ دیتا ہے اور عوام کی خوشحالی کا ذریعہ بنتا ہے۔

بد قسمتی سے پاکستان کی سیاسی تاریخ مسلسل عدم استحکام کی کہانی رہی ہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء سے شروع ہونے والا اقتدار کا کھیل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جمہوریت کے قیام کی کوششوں کے باوجود ختم نہ ہو سکا۔ جنرل ضیاء الحق نے آمریت کو مزید طول دیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی نے ملک کو ترقی کی بجائے سیاسی تنازعات میں الجھا دیا۔ پرویز مشرف کے دور میں ایک بار پھر مارشل لاء آیا، جس کے بعد جمہوریت بحال تو ہوئی، مگر تحریک انصاف کی حکومت اور دیگر جماعتوں کے درمیان کشیدگی نے سیاسی ماحول کو مزید خراب کر دیا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں ہمیشہ طاقت کا ارتکاز ایک فرد یا ادارے میں رہا ہے۔ کبھی کوئی فوجی آمر حکومت سنبھالتا ہے تو کبھی ایک منتخب وزیر اعظم خود کو جمہوری نظام کے تحت مطلق العنان بنا لیتا ہے۔ اس رویے نے نہ صرف اداروں کو کمزور کیا ہے بلکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسے میں سوئٹزرلینڈ جیسا نظام حکومت، جہاں طاقت کی تقسیم اور اجتماعی قیادت پر زور دیا جاتا ہے، پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کا نظام حکومت ایک اجتماعی وفاقی کونسل کے تحت چلتا ہے جس میں سات افراد شامل ہوتے ہیں۔ یہ کونسل ملک کے تمام بڑے فیصلے اجتماعی طور پر کرتی ہے اور کوئی ایک فرد تمام اختیارات کا مالک نہیں ہوتا۔ صدر کا عہدہ بھی محض علامتی ہوتا ہے اور ہر سال ایک نئے رکن کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اقتدار کا ارتکاز کسی ایک شخصیت یا ادارے میں نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے سیاسی استحکام اور اداروں کی مضبوطی قائم رہتی ہے۔

پاکستان میں طاقت کے حصول کے لیے فوج اور سیاستدانوں کے درمیان مسلسل کشمکش چلتی رہتی ہے۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوری، دونوں کے رہنما اکثر اپنی ذات کو نظام سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ یہ طرز عمل نہ صرف جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ معیشت، خارجہ پالیسی، اور عدالتی نظام جیسے اہم شعبوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اگر پاکستان سوئٹزرلینڈ کے ماڈل کو اپنائے تو اقتدار کی جنگ ختم ہو سکتی ہے، کیونکہ اجتماعی قیادت میں کوئی ایک فرد یا ادارہ نظام پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ حال میں ہونے والی ائینی ترمیم کے ذریعہ عدلیہ میں بھی ایسی ہی تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کو اگر مثبت انداز میں آگے لے کر جایا جائے تو خاصی بہتری آسکتی ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے نظام میں طاقت کی تقسیم نہ صرف وفاقی سطح پر ہے بلکہ تمام اکائیوں کو بھی مساوی حقوق دیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان مسلسل تنازع رہتا ہے، جو قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر سوئس ماڈل کو اپنایا جائے تو تمام اکائیوں کو اپنی حیثیت کا احساس ہوگا اور مرکز کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر ہوں گے۔ سوئٹزرلینڈ کے نظام کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس میں عوام کو زیادہ مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں براہ راست حصہ لیں۔ ریفرنڈم اور عوامی رائے دہی جیسے عمل وہاں کے نظام کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی اگر عوام کو فیصلوں میں شامل کیا جائے تو حکمرانوں کے یکطرفہ فیصلوں سے ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کے مسائل کا حل طاقت کے ارتکاز کو ختم کرنے اور اجتماعی قیادت کے تصور کو اپنانے میں ہے۔ سوئٹزرلینڈ کا نظام حکومت اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح ایک ملک میں تمام ادارے مل کر کام کر سکتے ہیں اور عوام کی بھلائی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ اگر پاکستان اس ماڈل کی طرف قدم بڑھائے تو نہ صرف سیاسی استحکام آئے گا بلکہ عوامی خوشحالی کا خواب بھی حقیقت بن سکتا ہے۔