BusinessLatest

پاکستان میں معدنیات کی دولت اور صوبائیت کے مسائل

پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ایک ایسا ملک ہے جس کی زمین کے نیچے بے پناہ خزانے دفن ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کے پاس اربوں ڈالر مالیت کے معدنی وسائل موجود ہیں، جنہیں اگر مؤثر حکمت عملی کے تحت نکالا جائے اور بہتر انتظام کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ ملک کی معیشت کو مکمل طور پر بدل سکتے ہیں اور پاکستان کو قرضوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ان وسائل میں سب سے نمایاں سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں جو بلوچستان کے علاقے ریکوڈک اور چاغی میں پائے جاتے ہیں۔ ان ذخائر کی مالیت کا اندازہ اربوں ڈالر میں لگایا گیا ہے اور اگر یہ مکمل طور پر حاصل کیے جائیں تو نہ صرف ملکی صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ برآمدات میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوگا۔

پاکستان کے پاس کوئلے کے بھی بڑے ذخائر موجود ہیں، خاص طور پر سندھ کے علاقے تھر میں کوئلے کا ایک بہت بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جو دنیا کے بڑے کوئلہ ذخائر میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھی کوئلے کی کانیں موجود ہیں جن سے توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر ان ذخائر کو جدید ٹیکنالوجی سے نکالا جائے اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں استعمال کیا جائے تو پاکستان خود کفیل ہو سکتا ہے۔

قدرتی گیس بھی پاکستان کے اہم وسائل میں سے ایک ہے۔ کے پی کے اور سندھ کے گیس فیلڈ، زمزمہ، قلات، گورو، اور دیگر علاقوں میں بڑی مقدار میں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ اگر ان کا مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے اور گیس چوری اور غیرقانونی استعمال کو روکا جائے تو یہ ملکی صنعت، ٹرانسپورٹ اور گھریلو صارفین کے لیے بڑی حد تک کفایت شعاری کا باعث بن سکتی ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان، چترال، سوات اور دیگر پہاڑی علاقوں میں قیمتی پتھروں، نگینوں اور جواہرات کے خزانے دفن ہیں۔ روبی، نیلم، زمرد، پکھراج، ٹورملین اور دیگر قیمتی پتھر بین الاقوامی منڈیوں میں بڑی قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ اگر ان پتھروں کو جدید طریقوں سے نکال کر بہتر انداز میں پروسیس کر کے برآمد کیا جائے تو یہ زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتے ہیں۔

پاکستان کی زمین میں اعلیٰ معیار کا ماربل بھی پایا جاتا ہے جو زیارت، لسبیلہ، بونیر اور سوات جیسے علاقوں میں بڑی مقدار میں دستیاب ہے۔ پاکستانی ماربل دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور معیار کی وجہ سے مقبول ہے، لیکن بدقسمتی سے اس صنعت میں جدید مشینری اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے برآمدات محدود ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر اس صنعت کو ترقی دیں تو ماربل کی برآمدات میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

ہمالیہ کے دامن میں واقع پنجاب کے ضلع جہلم اور چکوال کے علاقے دنیا بھر میں مشہور ہمالین پنک سالٹ (گلابی نمک) کا مرکز ہیں۔ یہ نمک اپنی خالص ترین شکل، طبی فوائد اور خوبصورتی کے باعث دنیا بھر میں مانا جاتا ہے۔ اگر اس نمک کو بہتر طریقے سے پیکجنگ اور برینڈنگ کے ساتھ برآمد کیا جائے اور صرف خام مال کے بجائے ویلیو ایڈیڈ مصنوعات تیار کی جائیں جیسے کہ نمک کے لیمپ، فرش کے ٹائلز، نمکین صابن، تو یہ پاکستان کے لیے ایک اہم برآمدی شعبہ بن سکتا ہے۔

لیکن افسوس کہ یہ خزانے صدیوں سے زمین میں دفن ہیں اور سیاسی، انتظامی، سماجی اور صوبائی مسائل کی وجہ سے ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی مسائل ہیں۔ معدنیات سے بھرپور علاقوں میں اکثر بدامنی، شورش، یا سیاسی بے چینی پائی جاتی ہے۔ بلوچستان، جو کہ ریکوڈک اور دیگر معدنی علاقوں کا گڑھ ہے، وہاں کی عوام میں احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ ان کے وسائل سے فائدہ تو وفاق یا بیرونی کمپنیاں اٹھاتی ہیں لیکن ان علاقوں کو ترقی نہیں دی جاتی۔ یہی احساس محرومی عوام کو ریاست سے دور اور بیرونی عناصر کے قریب کر دیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی ان معاملات پر صرف نعرے بازی کرتی ہیں لیکن کوئی پائیدار پالیسی یا جامع حکمت عملی نہیں بنائی جاتی۔

صوبائی مسائل کی جڑ بنیادی طور پر اختیارات کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ وسائل سے مالا مال علاقوں کو شکایت ہے کہ تمام فیصلے اسلام آباد میں بیٹھ کر کیے جاتے ہیں جبکہ مقامی حکومتوں کو نہ اعتماد میں لیا جاتا ہے اور نہ ہی مکمل مالیاتی اختیارات دیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقیاتی منصوبے تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں یا مقامی حکومتیں ان پر عملدرآمد میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبوں کو وفاق کے ساتھ فیصلوں می اہمیت دینی چاہیے۔

مقامی افراد اور حکومتوں کو فائدہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ معدنیات کے منصوبوں میں مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ ٹریننگ سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ وہ جدید مشینری اور کان کنی کی تکنیکس سیکھ سکیں۔ مقامی حکومتوں کو رائلٹی کا ایک بڑا حصہ دیا جائے تاکہ وہ اپنے علاقوں کی ترقی میں خود کفیل ہوں۔ سڑکیں، اسپتال، تعلیمی ادارے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے تاکہ عوام کو بھی محسوس ہو کہ ان کے وسائل ان ہی پر خرچ ہو رہے ہیں۔

شکایات کے ازالے کے لیے ایک مؤثر اور شفاف نظام قائم کیا جانا چاہیے جس میں عوام، مقامی رہنما، انتظامیہ اور وفاقی ادارے باقاعدگی سے بیٹھ کر معاملات کو زیر بحث لائیں۔ شکایات کی بروقت سماعت، شفاف تحقیقات، اور عملی اقدامات کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے۔ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارم کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جھوٹے پروپیگنڈے سے بچا جا سکے اور عوام کو اصل حقائق سے آگاہ رکھا جا سکے۔

اس کے علاوہ پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک واضح، محفوظ اور سرمایہ کار دوست پالیسی اپنانا ہو گی۔ چین، ترکی، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے معدنی شعبے میں سرمایہ کاری کریں لیکن اس شرط پر کہ مقامی افراد کو روزگار، ٹیکنالوجی کی منتقلی، اور منافع کی شفاف تقسیم ممکن ہو۔ بدعنوانی، بیوروکریسی کی رکاوٹ، اور سیاسی مداخلت کو ختم کیے بغیر کسی بھی منصوبے کی کامیابی ممکن نہیں۔

ان وسائل کے حصول کے لیے ایک مربوط قومی حکمت عملی، جدید ٹیکنالوجی، غیرملکی سرمایہ کاری، مقامی مہارتوں کی تربیت اور شفاف نظام کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت، نجی شعبہ اور مقامی کمیونٹی مل کر کام کریں تو نہ صرف ان ذخائر کو نکالا جا سکتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا، علاقائی ترقی بھی ہوگی اور ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا ہوگا، کیونکہ معدنی خزانے تو موجود ہیں، اب صرف عزم، ایمانداری اور وژن کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان ان وسائل سے فائدہ اٹھا کر خوشحال اور خودمختار ملک بن سکے۔