BusinessLatest

انسانی ترقی بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کی کنجی

بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود محرومیوں کا شکار ہے۔ یہاں کے عوام برسوں سے شکایت کرتے آ رہے ہیں کہ ان کے حقوق کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ احساس محرومی اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ اب صرف ترقیاتی منصوبے کافی نہیں، بلکہ اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ بلوچ عوام کو اپنے معاملات میں شامل کیے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ امن۔ بلوچستان کے فیصلوں میں بلوچوں کی شمولیت ناگزیر ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے خود ذمے دار بن سکیں اور اپنے وسائل کے بہتر استعمال کا فیصلہ خود کر سکیں۔

بلوچستان میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں کو مجبوراً دیگر شہروں کی طرف ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ سرکاری اور پرائیویٹ دونوں شعبوں میں بلوچ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں دی جانی چاہئیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔ صوبے میں صنعتی اور زرعی ترقی کے منصوبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے دروازے کھل سکیں۔

بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کئی دہائیوں سے لوگوں کا ذریعہ معاش رہی ہے۔ لیکن اب صورتحال انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ بڑی کمپنیوں کے ٹرالرز اور غیر مقامی مچھلی پکڑنے والی بڑی کشتیوں نے سمندر کو اس حد تک خالی کر دیا ہے کہ مقامی ماہی گیروں کے جال خالی واپس آتے ہیں۔ یہ ان کی روزمرہ کی زندگی کا بدترین بحران بن چکا ہے۔ حکومت کو فوری طور پر ان بڑی کشتیوں کے خلاف ایکشن لینا چاہیے، مقامی ماہی گیروں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور پائیدار ماہی گیری کے اصول نافذ کرنے چاہئیں تاکہ مقامی آبادی اپنی صدیوں پرانی روزی کے ذرائع سے محروم نہ ہو۔

انسانی ترقی پر سرمایہ کاری بلوچستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ تعلیم، صحت اور ہنر مندی کی تربیت کے بغیر صوبے کی ترقی ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ، بلوچستان میں امن کی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبہ بنانا ہوگا جس میں بلوچ جدوجہد کرنے والوں کے حقوق اور مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ ان کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور انہیں یقین دلایا جائے کہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے گا۔ صوبے کے وسائل پر مقامی لوگوں کا حق ہے، اور انہیں ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ بلوچستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا بھی ضروری ہے تاکہ مقامی مسائل کا مقامی سطح پر حل نکلے۔ ڈیرہ بگٹی، گوادر، پنجگور، تربت جیسے علاقوں کو خصوصی توجہ دی جائے جہاں بنیادی سہولیات تک محدود رسائی ہے۔ تعلیم خصوصاً خواتین کی تعلیم کو فروغ دینا انتہائی اہم ہے کیونکہ ایک پڑھی لکھی نسل ہی مستقبل میں اپنی محرومیوں کو دور کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ صحت کے شعبے میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو معمولی بیماریوں کے لیے کراچی یا کوئٹہ کا سفر نہ کرنا پڑے۔

بلوچستان میں سیاحت کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں بے شمار قدرتی حسن کے مقامات موجود ہیں۔ مناسب انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کی فراہمی سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ پاکستان کے دیگر حصوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی بلوچستان کی خوبصورتی دیکھنے کا موقع ملے گا جس سے صوبے کی مثبت تصویر ابھرے گی۔

بلوچستان کے عوام کی محرومیاں صرف اقتصادی نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی بھی ہیں۔ انہیں اپنی شناخت اور ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے اور اس دل کی دھڑکن تبھی تیز ہو سکتی ہے جب اس کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، اس کے عوام کو گلے لگایا جائے اور ان کے ساتھ عملی انصاف کیا جائے، نہ کہ محض وعدوں اور اعلانات سے۔ بلوچستان کی ترقی پورے ملک کی ترقی ہے، اور اسے نظرانداز کرنا ملک کے مفاد میں نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ بلوچ عوام کی آواز سنی جائے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔