بڑھتا ہوا آن لائن کاروبار
پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان میں پرچون کے کاروبار میں خاصی تبدیلی آگئی ہے۔ بہت سی بڑی کمپنیوں نے اپنے سٹور کھول لیا ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے دکانداروں کے لیے چیزیں مشکل ہو گئیں ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر کپڑے کی دُکانیں ہیں۔ کیونکہ بڑے برانڈز نے چھوٹے شہروں میں بھی اپنے سٹور کھول دیے ہیں۔ عام دکانداری کے کم ہونے میں ان کا اپنا بھی عمل دخل ہے۔ عام دکاندار چاہے چھوٹا ہو یا بڑا اس تبدیلی کا ذمہ دار ہے اُسنے معیار اور قیمت پر توجہ دینے کی بجائے صرف منافع کمانے کو ہی مقصد بنایا۔
آن لائن کاروبار نے دنیا بھر میں کاروبار کرنے کا طریقہ بدل دیا ہے اور اس کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آن لائن کاروبار کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2019 میں ای کامرس 3.5 کھرب ڈالر کو چھو چکی تھی اور 2020 میں یہ 4.2 کھرب ڈالر اور 2023 تک یہ 6.5 کھرب ڈالر پہنچنے کی توقع ہے۔ سب سے بڑی آن لائن کاروبار مارکیٹ چین ، امریکہ اور یورو ممالک ہے۔ آن لائن کاروبارمیں اضافہ غیرمعمولی ہے کووڈ کی وبا کے بعد اسکی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ترقی پذیر ممالک جیسے انڈیا ، انڈونیشیا اور دیگرممالک میں بھی یہ کاروبار بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں آن لائن کاروبار ابھی بھی باقی ملکوں کے مقابلہ میں بہت پیچھے ہے۔ حکومت اس کاروبار کو آسان بنانے اور پالیسیوں کو وضع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بدقسمتی سے بعض افراد ناقص مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔
سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ایمیزون دنیا بھرمیں مشہور ہے۔ اس کمپنی کے بانی جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین شخص ہیں اور دُنیا کے پہلے شخص ہیں جن کے ذاتی اثاثے 100 ارب ڈالر سے تجاوز کیا۔ 2019 میں ایمیزون نے 239 ارب ڈالر کی اشیاء فروخت کی جو کہ امریکہ کے آن لائن کاروبار کا 45 فیصد تھیں۔ امریکہ میں دیگر بڑی کمپنیاں بھی آہستہ آہستہ آن لائن کاروبار میں آگے۔ ای بے (Ebay) ، شاپی فائی وغیرہ شامل ہیں- اب والمارٹ (Walmart) جیسی کمپنیاں بھی اس مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ آن لائن کاروبار نے ان کو خاصہ نقصان پہنچایا۔ چین میں JD.com سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے جس کو چین کا ایمیزون کہا جاتا ہے۔ علی بابا اور علی ایکسپریس بھی ای کامرس کی بہت بڑی کمپنیاں ہیں۔ علی بابا ہول سیل کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے صنعت کاروں ، ہول سیل اور پرچون کا کام کرنے والوں کی مدد کررہے ہیں۔
آن لائن کاروبار نے دنیا بھر میں کاروبار کرنے کا طریقہ بدل دیا ہے اور اس کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آن لائن کاروبار کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2019 میں ای کامرس 3.5 کھرب ڈالر کو چھو چکی تھی اور 2020 میں یہ 4.2 کھرب ڈالر اور 2023 تک یہ 6.5 کھرب ڈالر پہنچنے کی توقع ہے۔ سب سے بڑی آن لائن کاروبار مارکیٹ چین ، امریکہ اور یورو ممالک ہے۔ آن لائن کاروبارمیں اضافہ غیرمعمولی ہے کووڈ کی وبا کے بعد اسکی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے اور ترقی پذیر ممالک جیسے انڈیا ، انڈونیشیا اور دیگرممالک میں بھی یہ کاروبار بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں آن لائن کاروبار ابھی بھی باقی ملکوں کے مقابلہ میں بہت پیچھے ہے۔ حکومت اس کاروبار کو آسان بنانے اور پالیسیوں کو وضع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بدقسمتی سے بعض افراد ناقص مصنوعات فروخت کر رہے ہیں۔
سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ایمیزون دنیا بھرمیں مشہور ہے۔ اس کمپنی کے بانی جیف بیزوس دنیا کے امیر ترین شخص ہیں اور دُنیا کے پہلے شخص ہیں جن کے ذاتی اثاثے 100 ارب ڈالر سے تجاوز کیا۔ 2019 میں ایمیزون نے 239 ارب ڈالر کی اشیاء فروخت کی جو کہ امریکہ کے آن لائن کاروبار کا 45 فیصد تھیں۔ امریکہ میں دیگر بڑی کمپنیاں بھی آہستہ آہستہ آن لائن کاروبار میں آگے۔ ای بے (Ebay) ، شاپی فائی وغیرہ شامل ہیں- اب والمارٹ (Walmart) جیسی کمپنیاں بھی اس مارکیٹ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں کیونکہ آن لائن کاروبار نے ان کو خاصہ نقصان پہنچایا۔ چین میں JD.com سب سے بڑی ای کامرس کمپنی ہے جس کو چین کا ایمیزون کہا جاتا ہے۔ علی بابا اور علی ایکسپریس بھی ای کامرس کی بہت بڑی کمپنیاں ہیں۔ علی بابا ہول سیل کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے صنعت کاروں ، ہول سیل اور پرچون کا کام کرنے والوں کی مدد کررہے ہیں۔
آن لائن اور برانڈ کی وجہ سے میرے جیسے لوگوں کی زندگی بہت آسان ہو گئی کیونکہ میں خریداری میں کبھی اچھا ثابت نہیں ہوا۔ جس قیمت پر بڑے برانڈز چیزیں فروخت کرتے ہیں اُس کے ساتھ عام دوکاندار مقابلہ نہیں کر سکتے۔ عام دوکاندار کو تھوک فروش سے سامان خریدنا پڑتا ہے ، جو درآمد کنندہ یا کارخانہ دار سے سامان خریدتا ہے اور ان سب کا منافع اسمیں شامل ہوتا ہے۔ جبکہ ، بڑے برانڈز براہ راست ملک میں یا بیرون ملک کی فیکٹریوں سے سامان تیار کرواتے ہے۔ بڑے برانڈز اپنی مصنوعات کے معیار کو یقینی بناتے ہیں جو انفرادی دوکاندار کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اسے مختلف تھوک فروشوں سے سامان خریدنا پڑتا ہے جو زیادہ قیمت پر کم معیاری سامان بیچتا ہے۔
جدت ایک اہم عنصر ہے۔ بڑے برانڈز کے اپنے ڈیزائنر ہوتے ہیں جو کپڑے کے انتخاب سے لے کر سلائی تک اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ڈیزائن اور رنگ جدید ترین ٹرینڈ کے مطابق ہوتے ہیں۔ جبکہ چھوٹے خوردہ فروش کو مقامی مارکیٹ میں دستیاب سامان خریدنا پڑتا ہے جو عام طور پر بہت اچھے معیار کا نہیں ہوتا۔ یہ بڑی وجہ ہے کہ چھوٹے خوردہ فروش کے پاس مصنوعات کی بہت اچھی اور وسیع سٹاک نہیں ہوتا۔
مالز نے بھی خریداری کا رجحان بدل دیا ہے۔ جیسا کہ لوگ مال کے اندر آنے کے بعد خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین جنہیں چوری، چھیننے یا ہراساں کرنے کا خوف ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ تمام برانڈز ایک چھت کے نیچے دستیاب ہوتے ہیں اور وہ بیک وقت کئی سٹور پر جا کر مختلف ورائٹی کو چیک کر سکتے ہیں۔ اپکو موسم کی فکر کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ موسم چاہے گرم ہو یا سرد بارش ہو یا دھوپ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مال کے ساتھ ایک محفوظ پارکنگ ایریا ہوتا ہے جہاں وہ اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے خریداری کر سکتے ہیں۔ انفرادی دوکاندار کے لیے اسمیں بڑا نقصان ہے کیونکہ مال میں دکان صرف بڑے برانڈز کو ہی دی جاتی ہے۔
آن لائن کاروبار اگرچہ پاکستان میں اتنا مقبول نہیں جتنا دوسرے ممالک میں ہے لیکن اس سے چھوٹے دوکانداروں کے لیے بھی مُشکل ہورہی ہے۔ خاص طور پر کمپیوٹر ، سیل فون اور دیگر چیزوں ۔ لوگ ماؤس یا کسی اور چیز کی تلاش کے لیے گشت اور وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ وہ آن لائن خریدنے کا رجحان رکھتے ہیں کیونکہ ایسی چیزیں اکثر سادہ ہوتی ہیں اور ویب سائٹ پر بہت اچھی طرح بیان کی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں خوردہ فروش کافی مضبوط ہے اور جب حال ہی میں جیف بیزوس نے بھارت کا دورہ کیا تو پی ایم مودی نے ان سے ملنے سے گریز کیا۔
انفرادی خوردہ فروش کو اس رکاوٹ کو دور کرنے کی حکمت عملی بنانی ہوگی اور اس بدلتی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے جدت لانی ہوگی۔ انہیں خریدار کے مفاد کا تحفظ بھی کرنا ہوگا ایماندار رہنا ہوگا اور اپنی اشیا کی مارکیٹنگ میں بہتری لانی ہوگی۔