افغانستان کی معشیت ہی امن کی ضامن ہے
افغانستان کے پچھلے چند دن کے حالات نے دنیا کو حیرانی اور تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ان واقعات نے دنیا کو دنگ کر دیا ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصرہیں کے بیس سال میں ایک ٹریلین ڈالر سے بنائی گئی حکومت اور ایک بڑی فوج گیارہ دنوں میں بغیر کسی نشان کے کس طرح غائب ہو گئی۔ اب جب طالبان اپنی فتح کا جشن منا رہے ہیں تو ان کے سامنے چند بڑے مسائل ہیں۔ اگرچہ اسوقت افغانستان میں کسی بڑے تنازعہ کا فوری خطرہ نہیں ہے کیونکہ تمام اندرونی دھڑے چالیس سال کی طویل جنگوں سے تھک چکے ہیں اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ بھی اب افغانستان میں کسی فوجی کارروائی میں دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ وہ بیس سال کی جنگ سے اکتا گے ہیں اور ان کی بیس سالہ محنت اور سرمایہ کاری طالبان کے قبضے کے بعد ختم ہوگئی ہے۔
اب طالبان کے لیے اصل مرحلہ افغانستان کو چلانا ہے۔ اسوقت تک انہیں کسی بھی اندرونی یا بیرونی طاقت کی طرف سے کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے لہذا اسے افغانستان کے لوگوں کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ وہ نرم رویہ رکھتے ہوئے دنیا کو اپنے بارے مین اچھا تاثر دے سکتے ہیں۔ تاہم ، سب سے مشکل کام معیشت کی بحالی ہے۔ افغانستان کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور وہ اب تک اپنی معیشت کو چلانے کے لیے مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کر رہا تھا۔ امریکہ نے حال ہی میں نو بلین ڈالر مالیت کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ جرمنی اور کینیڈا نے بھی اپنی مالی امداد روک دی ہے۔ اس سے طالبان کے لیے چیزیں بہت مشکل ہو جائیں گی۔ اگرچہ ، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان معدنیات سے مالا مال ملک ہے جن کی مالیت تقریبا ایک کھرب ڈالر کے قریب ہے لیکن ان کی کھدائی اور استعمال کے لیے اچھا خاصہ وقت درکار ہے۔ اب تک چین اور روس نے افغانستان کی مکمل حمایت کی ہے۔ ایران اور ترکی بھی افغان معیشت کو متحرک کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی مغربی ممالک کے تعاون کے بغیر معشیت کو صحیح راستے پر نہیں لایا جا سکتا۔ افغانستان چار کروڑ افراد کا ملک ہے اور اس کی فی کس آمدنی دنیا میں سب سے کم ہے اسلیے اس ملک کو چلانا کوئی اتنا آسان ںہیں ہوگا۔
افغان طالبان کا مغرب کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنا بہت ضروری ہے۔ دنیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر افغانستان میں حالات خراب ہوئے تو یہ نہ صرف خطے کو غیر مستحکم کرے گا بلکہ پوری دنیا پر اس کے مضر اثرات ہوں گے۔ پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اور اس سے بڑے شدید مسائل پیدا ہوں گے۔ دنیا کے امن کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ افغانستان میں افراتفری نہ پھیلے۔ طالبان کو نہ صرف موجودہ کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھنا چاہیے بلکہ چھوٹے پیمانے پر منصونے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی امداد کے لیے بھی کوشش تیز کردینی چاہیے۔ اگر طالبان دنیا کے ساتھ بڑے پیمانے پر کاروباری سرگرمیاں شروع کرلیتے ہیں تو افغان عوام کی زندگی بہتر ہو جائے گی اور یہ ہی افغانستان میِں امن لائے گا اور اسمیں ہی طالبان کی کامیابی ہے۔