مغرب میں غیرملکیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت
پچھلے چند سالوں میں مغربی ممالک میں امیگریشن اوروہاں رہنے کا عمل مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں اقتصادی مسائل، سماجی مسائل، بدلتی پالیسیز، بڑھتا ہوا نسل پرستی کا رجحان، نفرت انگیز جرائم اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ شامل ہیں۔
مغربی ممالک کی معیشتیں حالیہ دہائیوں میں سخت چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں، جس میں بے روزگاری کا بڑھتا ہوا مسئلہ سرِفہرست ہے۔ معاشی مسائل کے پیش نظر یہ ممالک اپنی مقامی آبادی کو ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس کی وجہ سے امیگرنٹس کے لیے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ غیر ملکیوں کو سرکاری سہولتوں جیسے صحت، تعلیم، اور سماجی تحفظ کی فراہمی مغربی حکومتوں پر مالی دباؤ ڈالتی ہے۔ اس دباؤ سے نمٹنے کے لیے امیگریشن پالیسیوں کو سخت کیا جا رہا ہے تاکہ نئے آنے والے لوگوں کی تعداد محدود کی جا سکے۔ امیگرنٹس اکثر کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں، جس سے مقامی مزدوروں کی تنخواہوں پر دباؤ بڑھتا ہے۔ مقامی مزدور طبقہ اس صورت حال کو ناانصافی سمجھتا ہے، جس سے امیگرنٹس کے خلاف عوامی غصہ پیدا ہوتا ہے اور حکومتیں ان کے داخلے کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
مغربی ممالک میں مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے آنے سے سماجی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مقامی آبادی یہ محسوس کرتی ہے کہ ان کی ثقافت، زبان اور طرز زندگی پر بیرونی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک قسم کا ثقافتی تناؤ پیدا ہو رہا ہے۔ امیگرنٹس کو مقامی سماج میں ضم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ زبان کی رکاوٹ، مذہبی اور ثقافتی فرق، اور مقامی لوگوں کے ساتھ میل جول کی کمی، ان مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ کچھ مغربی ممالک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امیگرنٹس کی آمد کے ساتھ جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ یہ دعوے اکثر مبالغہ آمیز ہوتے ہیں، لیکن میڈیا اور سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو ہوا دیتی ہیں، جس سے امیگریشن کے خلاف عوامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔
یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک امیگریشن قوانین کو سخت کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں نئے ویزا سسٹمز، پناہ گزینوں کی درخواستوں کا محدود ہونا اور امیگریشن کے لیے درکار شرائط کا بڑھنا عام ہو گیا ہے۔ پناہ گزینوں کی درخواستوں پر بھی سختی سے غور کیا جا رہا ہے اور بہت سے ممالک پناہ گرینوں کے لیے کوٹہ کم کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والے افراد کو اب زیادہ کڑی جانچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بہت سی درخواستیں مسترد ہو جاتی ہیں۔
یورپ اور امریکہ میں بڑھتے ہوئے نسل پرستانہ رجحانات غیرملکیوں کے لیے خطرناک ماحول بنا رہے ہیں۔ نسل پرستی کی بنیاد پر امیگرنٹس کے خلاف حملے اور امتیازی سلوک بڑھتا جا رہا ہے۔ نفرت انگیز جرائم، جن میں مسلمانوں، افریقی اور ایشیائی امیگرنٹس کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے، مغربی معاشروں میں بڑھ رہے ہیں۔ یہ جرائم امیگرنٹس کو نہ صرف سماجی طور پر الگ کرتے ہیں بلکہ انہیں جسمانی خطرات سے بھی دوچار کرتے ہیں۔
بہت سے مغربی ممالک میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں مقامی آبادی میں امیگرنٹس کے خلاف جذبات کو ہوا دے کر اپنی مقبولیت بڑھا رہی ہیں۔ یہ جماعتیں امیگریشن کو ملکی مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور اپنے ووٹرز کو یقین دلاتی ہیں کہ امیگرنٹس کی تعداد کو کم کرنے سے معیشت اور معاشرت میں بہتری آئے گی۔ مغربی ممالک میں دائیں بازو کے جواہم رہنما امیگریشن کے شدید مخالف ہیں، ان میں امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ، برطانیہ کے بورس جانسن، اٹلی کے ماتھیو سالوینی، فرانس کی مارین لی پین، ہنگری کے ویکٹر اوربان، اور جرمنی کے یورگ میتھن شامل ہیں۔ یہ رہنما امیگریشن کو ملکی معیشت، سیکیورٹی اور ثقافت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور سخت امیگریشن پالیسیز کے حامی ہیں۔ ان ممالک میں امیگریشن مخالف جذبات اور پالیسیاں زور پکڑ رہی ہیں، خاص طور پر افریقی، مشرق وسطیٰ اور مسلم امیگرنٹس کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
دائیں بازو کی جماعتیں پناہ گزینوں کو ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے پالیسیز بنا رہی ہیں۔ ان جماعتوں کا موقف ہوتا ہے کہ پناہ گزین مقامی وسائل پر بوجھ بنتے ہیں اور ملکی سکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں۔ کئی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتیں مقبول ہو رہی ہیں اور امیگریشن مخالف پالیسیاں لاگو کی جا رہی ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت میں امیگریشن کے خلاف سخت پالیسیز متعارف کروائی گئیں، جن میں میکسیکو کے ساتھ سرحدی دیوار کی تعمیر اور مسلم ممالک کے شہریوں پر پابندی شامل تھیں۔ ان پالیسیوں کے اثرات آج بھی امریکہ میں موجود ہیں۔ بریگزٹ کی ایک بڑی وجہ امیگریشن تھی۔ بریگزٹ کے بعد برطانیہ نے یورپی یونین کے شہریوں کے لیے ویزا سسٹم سخت کر دیا ہے اور امیگریشن کے حوالے سے مزید قوانین بنائے جا رہے ہیں۔
اٹلی میں دائیں بازو کی جماعتیں امیگریشن کے خلاف شدید موقف رکھتی ہیں، خاص طور پر افریقی پناہ گزینوں کے حوالے سے۔ موجودہ حکومت نے امیگریشن پالیسی کو مزید سخت کیا ہے۔ فرانس میں بھی دائیں بازو کی جماعتیں، خاص طور پر نیشنل فرنٹ، امیگریشن کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ فرانس میں مسلم اور افریقی امیگرنٹس کے خلاف سخت پالیسیاں زیر بحث ہیں۔ جرمنی میں دائیں بازو کی جماعت "آلٹرنیٹو فار جرمنی” (AfD) نے امیگریشن کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے۔ خاص طور پر شام اور دیگر مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کے حوالے سے سختی دکھائی جا رہی ہے۔
مغربی ممالک میں امیگریشن اور آباد ہونے کے عمل کو مشکل بنانے والی وجوہات میں اقتصادی دباؤ، سماجی مسائل، نسل پرستی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا ابھار شامل ہیں۔ یہ ممالک اب اپنی پالیسیوں کو سخت کر رہے ہیں اس تمام صورتحال میں امیگرنٹس کے لیے مغربی ممالک میں رہائش اور کام کے مواقع حاصل کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔