عالمی تجارتی پابندیوں کے دور میں پاکستان کی معیشت کی بحالی کا راستہ
عالمی سطح پر تجارتی پابندیوں کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ، یورپ، چین اور دیگر بڑی معیشتیں اپنی صنعتوں کو تحفظ دینے کے لیے درآمدات پر پابندیاں لگا رہی ہیں، سبسڈیز دے رہی ہیں اور "اپنے ملک میں بناؤ” (Make in your country) جیسے نعروں کو فروغ دے رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں ایک ترقی پذیر ملک جیسے پاکستان کے لیے ترقی کی راہ مزید مشکل ہو گئی ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت کو داخلی بنیادوں پر مضبوط کریں، خود کفالت کی طرف قدم بڑھائیں اور برآمدات کے ایسے ذرائع تلاش کریں جو عالمی پابندیوں سے کم متاثر ہوں۔
پاکستان کو سب سے پہلے اپنی پیداواری صلاحیت (productivity) بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی تک رسائی دینی ہوگی، پانی کا بہتر استعمال، اعلیٰ بیج، کھاد اور مشینری فراہم کرنا ہوگی۔ صنعتی شعبے کو توانائی کی تسلسل سے فراہمی، ٹیکس اصلاحات، اور کرپشن سے پاک ماحول مہیا کرنا ضروری ہے تاکہ فیکٹریاں پوری استعداد سے چل سکیں۔ مزدور کی تربیت، جدید مشینری کا استعمال، اور خام مال کی سستی فراہمی سے فی کس پیداوار میں اضافہ ہوگا جو براہ راست جی ڈی پی میں اضافے کا باعث بنے گا۔
جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے ہمیں سروسز، زراعت اور صنعت تینوں شعبوں پر بیک وقت توجہ دینی ہوگی۔ سروسز سیکٹر میں فری لانسنگ، آئی ٹی، ٹورازم، تعلیم اور صحت جیسے شعبے پاکستان کو زرمبادلہ کمانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ خاص طور پر آئی ٹی کی برآمدات کو فروغ دینا، نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتیں سکھانا، اور عالمی سطح پر آن لائن مارکیٹ سے جُڑنے کی سہولت دینا ضروری ہے۔ زراعت اور صنعت کی ترقی کے لیے حکومت کو چھوٹے کسانوں اور چھوٹے تاجروں کی مدد کرنا ہوگی تاکہ وہ بھی بڑے کھلاڑیوں کا مقابلہ کر سکیں۔
معاشی استحکام کے لیے مالیاتی پالیسی اور مالیاتی نظم و ضبط کا ہونا ناگزیر ہے۔ حکومت کو غیر ضروری اخراجات میں کمی لانا ہوگی، سبسڈی کے نظام میں شفافیت لانا ہوگی اور ٹیکس نظام کو آسان اور منصفانہ بنانا ہوگا تاکہ ہر شہری اپنی آمدنی کے مطابق ٹیکس دے اور قومی خزانے میں بہتری آئے۔ کرپشن کا خاتمہ، عدالتی اصلاحات، اور کاروباری آسانی کی درجہ بندی میں بہتری ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتی ہے۔
جہاں تک کرنسی کی مضبوطی کی بات ہے، تو یہ دو دھاری تلوار ہے۔ کرنسی کی قدر میں مصنوعی اضافہ اگرچہ امپورٹ سستی کرتا ہے، مگر اس سے برآمدات متاثر ہوتی ہیں کیونکہ پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی میں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر کرنسی کی قدر کم ہو، تو برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے، مگر درآمدی اشیاء جیسے تیل، مشینری اور ادویات مہنگی ہو جاتی ہیں، جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ اس لیے کرنسی کی پالیسی کو متوازن اور حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ کرنسی کی اصل طاقت معیشت کی مضبوطی سے آتی ہے، نہ کہ زبردستی کنٹرول سے۔
پاکستان کو عالمی برادری میں اپنی ساکھ بہتر بنانی ہوگی تاکہ غیر ملکی سرمایہ کار اعتماد سے سرمایہ کاری کریں۔ چین، ترکی، سعودی عرب، وسطی ایشیائی ریاستیں اور خلیجی ممالک سے دوطرفہ تجارتی معاہدے کر کے برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ سی پیک جیسے منصوبوں سے انفراسٹرکچر بہتر ہو رہا ہے، مگر ہمیں ان سے وابستہ مقامی صنعتوں کو بھی فروغ دینا ہوگا تاکہ اصل فائدہ عام پاکستانی کو ملے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی افرادی قوت کو تعلیم، ہنر، اور جدت کے ہتھیاروں سے لیس کرنا ہوگا۔ آبادی کا بڑا حصہ نوجوان ہے، اگر ان کو صحیح سمت، تربیت اور روزگار دیا جائے، تو یہی نوجوان معیشت کے انجن بن سکتے ہیں۔ ہمیں صرف عالمی منڈی کی طرف دیکھنے کے بجائے، اندرونی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا ہوگا، مقامی مارکیٹ کو فعال کرنا ہوگا، اور "اپنے وسائل پر انحصار” کا راستہ اپنانا ہوگا۔
یہ سب اقدامات وقت طلب ہیں مگر مستقل مزاجی، درست پالیسی اور سیاسی استحکام کے ساتھ پاکستان بھی معاشی ترقی، استحکام، اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔