دُنیا میں بڑی عمارتوں کے مقابلے کا خاتمہ
2015 تک دنیا میں بلند ترین عمارت بنانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ دوبئی، ملائشیا، تائیوان اور چین اس دوڑ میں سب سے آگے تھے۔ اگرچہ اس وقت دنیا کی چھ سب سے بلند عمارتیں ایشیا میں ہیں لیکن ستر فیصد سے زیادہ اونچی عمارتیں شمالی امریکہ میں ہیں۔ اب یہ رجحان بدل رہا ہے۔ چین نے سب سے پہلے اس دوڑ کو ختم کیا اور500 میٹر سے زیادہ بلند عمارتوں پرمکمل پابندی لگا دی۔ بلکہ 250 میٹر سے بلند عمارتوں کی تعمیر کے لیے بھی خصوصی اجازت درکار ہوگی جو کےصرف بڑے شہروں میں ہی بن سکتیں ہیں۔ ایسے شہرجن کی آبادی تیس لاکھ سے کم ہے وہاں صرف 150 میٹر سے بلند عمارتوں کی اجازت ہو گی۔ چین کی حکومت نے کہا ہے کہ بہت اونچی عمارتیں ناقابل عمل، معاشی طورپر بے فائدہ ہوتی ہیں اور ماحولیاتی کا مسائل باعث بنتی ہیں۔
اگرچہ پاکستان میں بھی پراپرٹی ٹائیکون اعلان کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں بلند ترین عمارت بنائیں گے لیکن یہ پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ ایک مذاق ہو گا۔ جس ملک میں اکثریت اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا نہیں کھلا پارہی اس ملک کے وسائل کو یوں ضائع کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ اگر پاکستان کوکسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ فیکٹریوں کی ہے، ہمیں کسی احمقانہ دوڑ میں شامل نہیں ہونا چا ہیے۔ ایک فیکٹری ملک کی معیشت میں کئی طریقوں سے فائدہ مند ہوتی ہے۔ اس سے لوگوں کو ملازمت ملتی ہے، اس چیزین مقامی طور پر سامان بنتی ہیں جس سے درآمدات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس سے ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر ہم اسکی کچھ مصنوعات برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں تو ہم زیادہ زرمبادلہ کمائیں گے۔ اس وقت بھی ہم پراپرٹی کے کاروبار میں اپنے وسائل کو بُری طرح ضائع کررہے ہیں۔ ہر طرف ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا کر ہم اپنی زرعی اراضی کو تباہ کر رہے ہیں۔ ان مٰیں سے کئی سوسائٹیوں تو خالی پڑی ہوئی ہیں۔