EconomyLatest

عالمی کرنسی جنگ: مغربی ممالک کی پریشانی اور برکس کی نئی حکمت عملی

حالیہ برسوں میں عالمی مالیاتی نظام میں ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جنہوں نے ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا جسے کچھ ماہرین معاشیات "کرنسی جنگ” کا نام دے رہے ہیں۔ یہ جنگ صرف زر مبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ تک محدود نہیں ہے، بلکہ اقتصادی غلبہ، سیاسی طاقت اور عالمی تجارت کے مستقبل سے متعلق ہے۔ امریکی ڈالر، یورو اور برطانوی پاؤنڈ نے طویل عرصے تک عالمی معیشت کی بنیاد رکھی ہے، لیکن اب ان کی بالادستی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک اپنی کرنسیوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا شکار ہیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک اور برکس (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ یہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کے عالمی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے عالمی مالیاتی نظام پر مغربی کرنسیوں، خاص طور پر امریکی ڈالر کا غلبہ رہا ہے۔ ڈالر کی حیثیت دنیا کی مرکزی ریزرو کرنسی کے طور پر امریکی حکومت کو بین الاقوامی تجارت، سرمایہ کاری اور پابندیوں پر اہم اثر و رسوخ فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح، یورو اور برطانوی پاؤنڈ بھی عالمی مالیات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، اب ان کی بالادستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے، اور مغربی ممالک متعدد وجوہات کی بنا پر پریشان ہیں. اگر ڈالر، یورو یا پاؤنڈ عالمی غلبہ کھو دیتے ہیں تو مغربی ممالک کی تجارتی اور جغرافیائی سیاسی فیصلوں پر معاشی گرفت کمزور ہو سکتی ہے۔ ڈالر کی بالادستی امریکہ کو پابندیاں عائد کرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ ڈالر سے دوری اس اقتصادی ہتھیار کو کمزور کر دے گی۔

کمزور کرنسی مغربی ممالک میں مہنگائی کے دباؤ میں اضافہ کر سکتی ہے۔ چونکہ تیل جیسے عالمی اجناس زیادہ تر ڈالر میں تجارت ہوتی ہیں، اس لیے ڈالر کی کمزور حیثیت صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ چین جیسے اقتصادی طاقتوں کے عروج اور برکس ممالک کی طرف سے اپنے کرنسی نظام قائم کرنے کی کوششوں نے عالمی طاقت کے توازن میں تبدیلی کے اشارے دیے ہیں۔ مغربی ممالک اپنی اقتصادی برتری کھونے سے پریشان ہیں۔ اگرچہ ڈالر اب بھی غالب ہے، لیکن اس کی بالادستی میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ دہائیوں سے، ممالک نے بڑی مقدار میں امریکی ڈالر جمع کر رکھے ہیں، جس نے اسے دنیا کی پسندیدہ کرنسی بنا دیا ہے۔ تاہم، عالمی اقتصادی منظرنامے میں تبدیلی کے ساتھ، نئے چیلنجز ابھر رہے ہیں.

ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے بہت سے ممالک اب ڈالر پر انحصار پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ جیسے جیسے جغرافیائی سیاسی تنازعات بڑھتے ہیں، جیسے امریکہ اور چین کے درمیان، ممالک اپنے اقتصادی نظام کو امریکی پابندیوں یا عدم استحکام سے بچانے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں۔ یورو اور یوان امریکی ڈالر کے متبادل کے طور پر ابھر رہے ہیں، جبکہ برکس ممالک اپنی کرنسی قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

مغربی ممالک میں سیاسی عدم استحکام (جیسے برطانیہ میں بریگزٹ یا امریکہ میں داخلی اختلافات) کی وجہ سے مغربی کرنسیوں پر اعتماد کم ہو رہا ہے، جس سے ممالک متبادل ذرائع تلاش کرنے کی مزید ترغیب حاصل کر رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے لیے امریکی ڈالر کا استعمال کئی چیلنجز کا باعث بنتا ہے. بہت سے ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی تجارت اور قرضوں کے لیے ڈالر پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ ان کی معیشتوں میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ ان کی اپنی کرنسیاں اکثر ڈالر سے منسلک ہوتی ہیں یا اس کے اثرات کا شکار ہوتی ہیں۔

ڈالر میں قرضے لینا اس وقت ناقابل برداشت ہو جاتا ہے جب ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک نے ڈالر میں قرض لیا ہے، اور جب ان کی مقامی کرنسیاں کمزور ہوتی ہیں تو ان قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے، جس سے مالیاتی بحران پیدا ہوتا ہے۔ کچھ ممالک سیاسی رکاوٹوں کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ امریکہ ڈالر کی عالمی بالادستی کی وجہ سے پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔ جیسے ایران، وینزویلا اور روس ڈالر پر مبنی پابندیوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جس سے وہ متبادل ذرائع کی تلاش میں ہیں۔

حالیہ برسوں میں ایک اور اہم رجحان دوطرفہ تجارتی معاہدوں کی طرف بڑھنا ہے، جہاں دو ممالک اپنی کرنسیوں کا استعمال کرتے ہوئے تجارت کرتے ہیں بجائے اس کے کہ ڈالر کا سہارا لیں۔ یہ رجحان کئی وجوہات کی بنا پر سامنے آیا ہے. کئی ممالک ڈالر پر اپنے انحصار کو کم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس کے اتار چڑھاؤ یا امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچ سکیں۔ دوطرفہ تجارتی معاہدے علاقائی شراکت داری کو بھی مضبوط بنا سکتے ہیں، کیونکہ ممالک مغربی مالیاتی نظام پر انحصار کیے بغیر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ زیادہ قریب سے کام کر سکتے ہیں۔ مقامی کرنسیوں میں تجارت سے کاروباری افراد کو تبادلہ کی فیس سے بچنے اور ممکنہ زر مبادلہ کے نقصانات سے بچنے کا موقع ملتا ہے۔

برکس ممالک (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) ایک نئی کرنسی بنانے پر غور کر رہے ہیں تاکہ مغربی کرنسیوں کی بالادستی کو متوازن کیا جا سکے، اور اس اقدام کے عالمی معیشت پر اہم اثرات ہوں گے۔ ایک نئی BRICS کرنسی ان ممالک کو بین الاقوامی تجارت میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی اجازت دے گی۔ خاص طور پر روس جیسے ممالک کے لیے یہ اہم ہے، جو مغربی پابندیوں کا شکار ہیں۔ اپنی کرنسی بنا کر BRICS ممالک عالمی مالیاتی منڈیوں پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے اور مغربی ممالک کی اقتصادی بالادستی کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ BRICS کی کرنسی ان ممالک کو زیادہ معاشی خودمختاری فراہم کر سکتی ہے، جس سے انہیں مغربی کرنسیوں کی قدر میں اتار چڑھاؤ کے خطرات سے بچنے کا موقع ملتا ہے۔

اگر برکس نے کامیابی سے نئی کرنسی لانچ کی تو یہ عالمی معیشت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔ امریکی ڈالر کی عالمی طلب میں کمی اس کی قدر کو کمزور کر سکتی ہے، جس سے امریکہ میں مہنگائی کا دباؤ بڑھے گا اور اس کی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی صلاحیت کمزور ہو گی۔ ایک نئی عالمی کرنسی کی تشکیل سے دنیا بھر کے ممالک اپنی تجارتی حکمت عملیوں پر دوبارہ غور کریں گے۔ مغربی ممالک اپنی مالیاتی بالادستی کو آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔ وہ نئی تجارتی معاہدوں، پابندیوں اور اقتصادی طاقتوں کے ساتھ اتحادیوں کو مضبوط بنانے جیسے اقدامات کر سکتے ہیں تاکہ اپنی کرنسی کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھ سکیں۔

عالمی کرنسی جنگ صرف زر مبادلہ کی شرح کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی طاقت کی جنگ ہے۔ جیسے جیسے چین اور روس کے ساتھ برکس بلاک متبادل کرنسیوں کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں، مغربی ممالک اپنی مالیاتی بالادستی کے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ برکس کی کرنسی کا ابھار عالمی تجارت اور معیشت میں ایک بڑا تبدیلی کا اشارہ دے گا، اور یہ مغربی ممالک کے اثر و رسوخ کو کم کر سکتا ہے۔ مغربی ممالک ان تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں کیونکہ اس کرنسی جنگ کا نتیجہ آئندہ دہائیوں تک عالمی اقتصادی نظام کو تشکیل دے گا۔