Featured

پاکستان کی معیشت پر غلط فیصلوں کا بوجھ

پاکستان کی تاریخ اگرچہ قربانیوں اور جدوجہد سے عبارت ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی پالیسی سازی میں انفرادی، سیاسی اور غیر تکنیکی فیصلے اس قوم پر ایک بھاری قیمت ڈال چکے ہیں۔ ہر دور میں کسی نہ کسی ادارے، شخصیت یا جماعت نے ایسے فیصلے کیے جن کا مقصد وقتی فائدہ یا سیاسی فائدہ تو تھا، مگر ملکی مفاد، طویل المدتی پائیداری اور معیشت کی بنیادوں کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے، صنعت تباہ ہو چکی ہے، زراعت تنزلی کا شکار ہے، مہنگائی بے قابو ہے اور نوجوان بے روزگار ہو کر مایوسی کا شکار ہیں۔

ریکوڈک کا منصوبہ پاکستان کے لیے سونے کی کان تھا۔ یہ ایک نایاب موقع تھا کہ ملک قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا کر بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرے، برآمدات میں اضافہ ہو اور بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔ مگر بدقسمتی سے سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی کے باہمی عدم اعتماد، غیر شفاف فیصلے اور ذاتی مفادات کی بنا پر یہ منصوبہ متنازعہ بنا دیا گیا۔ عدالتوں میں ایسے فیصلے ہوئے جنہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بدظن کیا اور پاکستان کو نہ صرف اربوں ڈالر کا جرمانہ بھگتنا پڑا بلکہ عالمی سطح پر اعتماد کا فقدان بھی پیدا ہوا۔ اس ایک منصوبے نے ہمیں یہ سبق دیا کہ بڑے قومی منصوبوں میں قانونی، انتظامی اور سیاسی یکجہتی نہ ہو تو وہ خزانے کے بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔

ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی اسی نوعیت کا تھا جسے سیاسی طور پر پرکشش بنانے کی کوشش کی گئی مگر حقیقتاً یہ منصوبہ نہ تکنیکی لحاظ سے قابل عمل تھا اور نہ ہی بین الاقوامی پابندیوں کے ماحول میں اس کی تکمیل ممکن تھی۔ اس منصوبے پر وقت، وسائل اور سفارتی ساکھ ضائع کی گئی جبکہ متبادل اور قابل عمل منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس طرح کا ہی معاملہ تاپی گیس پائپ لائن کا ہے جو بظاہر علاقائی تعاون کا ایک مظہر ہے، مگر افغانستان جیسے غیر مستحکم ملک سے گزرنے والا منصوبہ جہاں مختلف دھڑے، گروہ اور سیاسی انتشار موجود ہو، حقیقت میں صرف خواب ہی ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسے منصوبے جن میں سیکیورٹی، سفارتکاری اور طویل المدتی پالیسی کی ہم آہنگی نہ ہو، وہ ملک کے لیے فائدہ کے بجائے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔

یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں توانائی کا شدید بحران رہا ہے، لیکن اس بحران سے نکلنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے وہ جلد بازی اور غیر متوازن حکمت عملی پر مبنی تھے۔ بجلی کے بڑے منصوبے تیزی سے لگائے گئے، مگر یہ سب منصوبے مہنگی درآمدی ایندھن جیسے تیل، گیس اور کوئلے پر مبنی تھے۔ ان منصوبوں سے وقتی طور پر لوڈشیڈنگ میں کمی تو آئی مگر اس کی قیمت عام صارف اور صنعت کو چکانی پڑی۔ مہنگی بجلی نے پیداواری لاگت بڑھا دی، صارفین کے بل ناقابل برداشت ہو گئے اور صنعت مقابلے کی دوڑ سے باہر ہو گئی۔ توانائی کے شعبے میں منصوبہ بندی کی بجائے نمائشی اقدامات نے معیشت پر نہ ختم ہونے والا بوجھ ڈال دیا۔

سال 2019 میں حکومت کی جانب سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو غیر معمولی مراعات دینا ایک اور غلط فیصلہ تھا۔ اس فیصلے نے قومی سرمایہ کو غیر پیداواری شعبے میں جھونک دیا۔ کسانوں کی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بدل گئیں، زراعتی پیداوار متاثر ہوئی اور زمین کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ اس فیصلے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوا بلکہ زرعی خودکفالت بھی متاثر ہوئی۔ حکومت کی توجہ صنعت اور برآمدات پر ہونی چاہیے تھی، مگر اس کے بجائے زمین کی خرید و فروخت اور پلازوں کی تعمیر کو ترقی کا پیمانہ بنا دیا گیا۔

پاکستان میں صنعتی شعبہ ہمیشہ سے نظر انداز ہوتا آیا ہے۔ ملک کی ترقی کا اصل انجن صنعت ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے پالیسی سازوں نے صنعت کو کبھی اولیت نہیں دی۔ نتیجتاً آج ہم درآمدات پر انحصار کرتے ہیں، بے روزگاری بڑھتی جا رہی ہے اور برآمدات جمود کا شکار ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ صنعت کو ترجیح دی جائے، پالیسیوں کو برآمدات دوست بنایا جائے اور صنعتکاروں کو طویل المدتی استحکام کی یقین دہانی دی جائے۔

ان تمام تجربات اور ناکامیوں کے بعد ضروری ہے کہ ملک میں ایک ایسا خودمختار فورم قائم کیا جائے جو بڑے منصوبوں کی منظوری سے پہلے تکنیکی، مالی، قانونی اور ماحولیاتی تجزیہ کرے۔ اس فورم میں سیاستدان، عدلیہ، عسکری نمائندے، ٹیکنوکریٹس، ماہرین معاشیات اور سول سوسائٹی کے نمائندے شامل ہوں۔ یہ فورم ملک کے طویل المدتی مفاد میں فیصلے کرے تاکہ انفرادی یا سیاسی مفادات پر مبنی منصوبے ملک پر بوجھ نہ بنیں۔ اگر ہم نے یہ ادارہ نہ بنایا تو ہر آنے والا سیاستدان، جج یا آمر اپنے مفاد کے لیے فیصلے کرتا رہے گا اور قوم ہمیشہ ان غلط فیصلوں کی قیمت چکاتی رہے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم قوم کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لائیں اور ایک مستقل قومی پالیسی وضع کریں تاکہ آنے والی نسلیں ایک مضبوط اور خود کفیل پاکستان دیکھ سکیں۔