آئی ایم ایف کا معاہدہ کرنے میں تعمل
حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کو کرنے کی غرض سے ایسی شرائط بھی مانیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ ایندھن کی قیمتیوں میں تین مرتبہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اب تک حکومت ایندھن کی قیمتوں میں 78 روپے کا اضافہ کر چکی ہے مگر اسکے باوجود آئی ایم ایف معاہدہ کو مسلسل ٹالتی جارہی ہے۔ حکومتی وزراء نے پچھلے ہفتے پھر اعلان کیا ہے کہ مستقبل قریب میں ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ حکومت وقت کئی بنا پر اسوقت آئی ایم ایف کے چُنگل میں پھنس چکی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو پی ٹی آئی کی حکومت نے پیٹرول کی قیمتیں بہت کم رکھی اورپیٹرول کو بہت سبسڈی دی۔ پاکستان کا بجٹ خسارہ بھی بہت ذیادہ ہے اور آئی ایم ایف حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ پچاس روپے فی لیٹر لیوی لگا کر خسارے کو پورا کرے۔ تیسرا مسئلہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو 105 سے 115 فی بیرل کے درمیان منڈلا رہی ہیں اور ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگر یوکرین کی جنگ بڑھی تو صورتحال بہت زیادہ خراب ہو سکتی ہے اور قیمت 300 ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ چوتھی وجہ گزشتہ ایک سال میں پاکستانی روپے کی قدر میں زبردست کمی ہوئی ہے۔ پانچویں وجہ پاکستان کا تجارتی خسارہ ہے جس میں گزشتہ سال کے مقابلے بیس ارب ڈالر سے ذیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے حالات میں بہتری ہوسکتی ہے اگر پاکستان اپنے تجارتی خسارے کو کم کرے، روپے کی قدر میں اضافہ ہو اور خام تیل کی قیمت 90 ڈالر فی بیرل سے نیچے آجائے۔ آج تیل کی قیمت پہلی بار 100 ڈالر فی بیرل سے نیچے آئی ہے۔ پاکستان کو سعودیہ، قطر، ایران اور روس سے سستا تیل خریدنے کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا بجٹ یقیناً عوام اور کاروبار دوست نہیں ہوتا۔ اس سے صنعتوں پر بھی بُرا اثر پڑے گا مگر اسوقت پاکستان کے پاس اسکے علاوہ کوئی حل نہیں ہے کے وہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرے۔ اسکے بعد پاکستان کو ان مسائل سے نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی پلاننک کرنی چاہیے۔