روپے کی قدر میں کمی ملکی معشیت کے لیے تباہ کُن ہے
1980 کی دہائی میں ڈالر کی قدر 2.90 روپے تھی۔ یہ شرح آج کی نوجوان نسل کو ایک افسانہ کی طرح لگے گی۔ آئی ایم ایف/ورلڈ بینک نے اس وقت کے پالیسی سازوں پر دباؤ ڈالا کے برامدات بڑھانے کے لیے روپے کو ڈالر سے غیر منسلک کیا جانا چاہیے۔ اسوقت سے لیکر آج تک یہ ہی بتایا جاتا ہےکے روپے کا گرنا ہماری درامدات میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ اس دوڑ میں ہم نے بنگلادیش اور انڈیا کی کرنسیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کسی زمانے میں ایک پاکستانی روپے میں دوانڈین روپے ہوتے تھے آج حالات اسکے برعکس ہیں۔ انڈین اور بنگلددیش دونوں کی معشیتیں ہم سے بہت بہتر ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ روپیہ 173 کو چھو گیا ہے اور ابھی بھی اسکے روکنے کے کوئی آثار نہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان خود لوگوں کو بتا رہے تھے کہ ڈالر کے مقابلے میں ایک روپے کی قدر میں کمی ہونے کے کتنے نقصانات ہیں۔ پی ایم ایک کے دور میں ایک ڈالر سو روپے کا تھا اور ان کی حکومت پر روپیہ کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کا الزام تھا جو میری رائے میں قطعاً غلط نہیں تھا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی حکومت ہو جو اپنی کرنسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہ کرے۔ پی ٹی آئی حکومت کو بھی اس حوالے سے فورِی اقدام اٹھانا چاہیے ورنہ پاکستان کی معیشت کو جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہے ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اورلوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔