ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اوربدلتا ہوا امریکہ
امریکی الیکشن ختم ہوئے اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ ویسے تو دُنیا میں ہر وقت کہیں نہ کہیں الیکشن ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ہر چار سال کے بعد الیکشن ہوتے ہیں مگراس دفعہ امریکہ کے الیکشن نے دُنیا بھر میں جو توجہ حاصل کی وہ شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہو۔ اسکی وجہ صرف اور صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت تھی جو اپنی تقریروں کی وجہ سے خبروں پر چھائے رہے۔ اگرچہ اب سب تجزیہ کار اور ڈیموکریٹ پارٹی کے لوگ شکست کی مختلف وجوہات بتا رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کے کمالا ہیریس ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں انتہائی کمزور حریف تھیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کے کمالا کو صدارتی اُمیدوار بنانا اور پھرجیت کی اُمید رکھنا ہی ڈیموکریٹک پارٹی کی سب سے بڑی غلطی تھی تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو دیگر سیاستدانوں سے مختلف اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ ان کی شخصیت اور طرز سیاست روایتی اصولوں سے ہٹ کر ہے۔ ٹرمپ کا کھرا اور بے باک انداز، جو اکثر متنازعہ بیانات اور جارحانہ تقریروں پر مبنی ہوتا ہے، انہیں میڈیا میں مستقل توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ ان کی پاپولزم پر مبنی سوچ اور "امریکہ فرسٹ” نظریہ انہیں امریکی عوام میں خاص مقبولیت بخشتا ہے، کیونکہ وہ ملکی مفادات کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ وہ سیاست میں ناپسندیدہ مسائل کو براہ راست زبان میں بیان کرتے ہیں، چاہے وہ تارکین وطن کے حوالے سے سخت مؤقف ہو یا عالمی معاہدوں سے علیحدگی۔ بین الاقوامی سطح پر ان کی شخصیت کو متنازعہ اور غیر روایتی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؛ کچھ ممالک میں انہیں انتہائی سخت سمجھا جاتا ہے جبکہ ان کے حامی ان کے فیصلوں کو ایک مضبوط لیڈر کی نشانی مانتے ہیں۔ ٹرمپ کی شخصیت کا یہ منفرد انداز اور میڈیا میں موجودگی انہیں دیگر سیاستدانوں سے نمایاں کرتی ہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ تقریباً ہر شعبہ میں نمایاں تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں مگر ان کی کچھ بڑی اہم ہیں جن سے دُنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں آئینگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے وسائل جنگوں پر نہیں لگانا چاہتے۔ دنیا بھر میں جاری جنگوں نے امریکی وسائل پر بھاری بوجھ ڈالا ہے، جس سے ملکی خزانے میں کمی اور قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے ان جنگوں پر کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیں، جن کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ، امن کا قیام اور دنیا میں امریکی اثر و رسوخ برقرار رکھنا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی اس معاملے میں واضح تھی، وہ چاہتے تھے کہ امریکہ ان جنگوں سے نکل کر اپنے وسائل کو ملکی معیشت پر خرچ کرے اور بیرونی جنگوں سے دور رہے۔ اس سوچ کے تحت ٹرمپ نے مختلف محاذوں سے امریکی افواج کو واپس بلانے کا عندیہ دیا، تاکہ ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ اگر امریکہ ان جنگوں سے پیچھے ہٹتا ہے تو اس کے عالمی اور ملکی سطح پر کئی اقتصادی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ عالمی سطح پر امریکی اثر و رسوخ میں کمی آ سکتی ہے اور وہ ممالک جو امریکہ پر انحصار کرتے ہیں، ان کی سیکیورٹی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ کا ماننا ہے کہ ان اقدامات سے نہ صرف امریکہ کے وسائل محفوظ ہوں گے بلکہ داخلی طور پر بھی ملک مضبوط ہو گا۔ کیا یہ پالیسی دنیا اور امریکہ کو زیادہ محفوظ بنا دے گی؟ یہ کہنا مشکل ہے، کیونکہ امریکی انخلا سے عالمی طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے اور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ سکتے ہیں۔
اس وقت امریکہ کا تجارتی خسارہ تقریباً 700 بلین ڈالر کے قریب ہے اوراس کی بڑی وجہ بہت بڑی درآمدات ہیں جبکہ اسکے مقابلہ میں برآمدات محدود ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا محور امریکی معیشت کو مضبوط بنانا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے، جس میں اُنہوں نے مختلف ممالک، خاص طور پر چین، پر بھاری محصولات عائد کیے اور اب دوبارہ اسمیں ذیادہ شدت سے اس پالیسی کا نفاذ ہے۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ یہ محصولات امریکی صنعتوں کو تحفظ دیں گے اور مقامی کاروبار کو فروغ دیں گے۔ تاہم، اِن پالیسیوں کے کچھ منفی اثرات بھی ہوں گے۔ امریکی برآمدات پر بھی دیگر ممالک نے ردعمل میں محصولات عائد کیے جس سے امریکی مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں طلب کم ہوئی۔ موجودہ حالات میں یہ پالیسی عالمی معیشت پر بھی اثر انداز ہوگی کیونکہ تجارتی جنگ کے نتیجے میں عالمی مارکیٹ میں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور بین الاقوامی تجارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ان پالیسیوں کے ذریعے ماضی میں بھی تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، مگر اس کا مستقل حل اس وقت تک مشکل ہے جب تک امریکہ اپنی پیداوار اور برآمدات کو مستقل بنیادوں پر بہتر نہ کرے۔
امریکہ کا ایک بہت بڑا مسئلہ تارکین وطن کا بھی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق امریکہ میں اسوقت تقریباً گیارہ سے پندرہ ملین غیر قانونی تارکین وطن مقیم ہیں، جن میں سے اکثر بہتر مواقع کی تلاش میں غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہوئے۔ ان تارکین وطن کی موجودگی سے کچھ معاشرتی، اقتصادی اور سیکیورٹی مسائل نے جنم لیا ہے۔ سماجی سطح پر یہ تارکین وطن بعض اوقات مقامی افراد کی نوکریاں لے لیتے ہیں، جس سے مقامی افراد میں بیروزگاری کا احساس بڑھتا ہے۔ اقتصادی اعتبار سے یہ تارکین وطن اکثر کم اجرت پر کام کرتے ہیں، جس سے اجرتیں کم ہو جاتی ہیں اور مقامی مزدور طبقے کو نقصان پہنچتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ معیشت کے کئی شعبوں، جیسے کہ زراعت، تعمیرات اور خدمات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے بھی کچھ افراد غیر قانونی طریقے سے داخل ہوتے ہیں جن کے بارے میں حکومت کے پاس معلومات نہیں ہوتیں، جس سے بعض اوقات سیکیورٹی خدشات جنم لیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کا محور سخت سرحدی کنٹرول اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی تھا۔ اس پالیسی کے تحت دیوار کی تعمیر اور مختلف پابندیوں کے ذریعے غیر قانونی داخلے کو روکا گیا۔ تاہم، تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنا ایک بہت ہی مشکل اور بڑا کام ہے۔ اگر ان تارکین وطن کو امریکہ سے نکال دیا جائے تو معیشت پربھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، کیونکہ مختلف شعبوں میں سستی افرادی قوت کی کمی واقع ہو جائے گی، جس سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اور مزدور کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
امریکہ کے پاس تقریباً 35 ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد شیل آئل کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ شیل ڈرلنگ کے ذریعے امریکہ اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے اور تیل کی عالمی منڈی میں خود کفیل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے نہ صرف امریکہ کا درآمدات پر انحصار کم ہوگا بلکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو بھی مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی۔ تاہم، شیل آئل کی ڈرلنگ کے کئی ماحولیاتی اثرات ہیں، جیسے کہ پانی کی آلودگی، زمینی سطح پر ارتعاش، اور کاربن کے اخراج میں اضافہ، جو کہ موسمی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے ماحولیات کی تنظیمیں شیل ڈرلنگ کے خلاف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی ماحولیات کے سخت اصولوں کو نرم کرنے کی رہی ہے تاکہ شیل آئل کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے اور امریکہ توانائی کے شعبے میں خود مختار ہو سکے۔ ان اقدامات سے ملک کی معیشت کو فروغ مل سکتا ہے، مگر ماحولیاتی تحفظ کے نقطۂ نظر سے یہ ایک متنازعہ قدم رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلم ممالک اور مسلم کمیونٹی کے حوالے سے پالیسی ہمیشہ تنازعے کا شکار رہی ہے۔ انہوں نے اپنے پچھلے دور حکومت میں کچھ ایسے اقدامات کیے جنہیں مسلم مخالف سمجھا گیا، جیسے کہ بعض مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں لگانا، جسے انہوں نے امریکی سیکیورٹی کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری قرار دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ پابندیاں دہشت گردی کو روکنے اور شدت پسندی کے خطرے سے بچنے کے لیے ہیں۔ تاہم، ان کے ناقدین نے اس پالیسی کو مسلم کمیونٹی کے خلاف تعصب قرار دیا۔ مسلم ممالک کے بارے میں ان کا رویہ مختلف نوعیت کا رہا ہے، جہاں انہوں نے کچھ ممالک سے معاشی اور فوجی تعلقات مضبوط کیے جبکہ ایران جیسے ممالک کے ساتھ کشیدگی اختیار کی۔ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے حوالے سے بھی ان کے بیانات بعض اوقات مسلم کمیونٹی میں تشویش کا باعث بنے۔ ان کی سخت سیکیورٹی پالیسی اور بعض اوقات مسلم کمیونٹی کے حوالے سے بیان بازی نے انہیں مسلم مخالف قرار دیا، جس سے مسلم کمیونٹی اور مسلم ممالک میں ان کی پالیسی کو لے کر مختلف رائے پائی جاتی ہے۔
امریکہ کو اکثر ہر ملک کا پڑوسی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا اثر و رسوخ اور مداخلت دنیا کے تقریباً ہر خطے تک پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اور معاشی اقدامات براہ راست اور بالواسطہ طور پر عالمی سطح پر تمام ممالک کو متاثر کرتے ہیں۔ چاہے وہ تجارت ہو، فوجی اتحاد، یا موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق معاہدے، امریکہ کے فیصلے عالمی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں اور دیگر ممالک کو مجبوراً اس کے مطابق ردعمل دینا پڑتا ہے۔ امریکہ کی طاقت کا بنیادی سبب اس کی مضبوط معیشت، جدید ترین ٹیکنالوجی، بڑے پیمانے پر فوجی طاقت، اور دنیا بھر میں پھیلا ہوا سفارتی و معاشی نیٹ ورک ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی ڈالرعالمی تجارت کی کرنسی ہونے کے ناطے دنیا کی اقتصادیات پر امریکہ کو ایک خاص کنٹرول فراہم کرتا ہے۔ جب امریکہ اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی کرتا ہے، چاہے وہ تجارتی محصولات میں اضافہ ہو یا کسی ملک پر پابندیاں، تو اس کا اثر دوسرے ممالک کی معیشتوں اور سیاست پر فوری طور پر پڑتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جو امریکہ کو عالمی سطح پر ایک سپر پاور بناتی ہیں اور اسے ہر ملک کا "پڑوسی” کہلانے کا حق دیتی ہیں۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کے ڈونلڈ ٹرمپ صدر کا حلف اُٹھانے کے بعد کیا کرتے ہیں اور اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ بہرحال اسوقت اُن کے بیانات کی وجہ سے امریکہ کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر خاصی بے چینی پائی جاتی ہے۔