الیکٹرک سائیکل – غریب کی خوشحالی کی کنجی
پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غربت زدہ ملک میں جہاں کروڑوں افراد کی زندگی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے، وہاں سائیکل کا استعمال کسی نعمت سے کم نہیں۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ نے حال ہی میں عام سائیکل کے استعمال کو فروغ دینے پر زور دیا ہے جو ایک نہایت قابلِ تحسین اقدام ہے۔ اس وقت پاکستان خاص طور پر پنجاب کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کی صورتحال خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں سائیکل کے فروغ سے نہ صرف شہریوں کی صحت بہتر ہوگی بلکہ ماحولیات کے تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔ تاہم ایک چیلنج جو اس حوالے سے اکثر سامنے آتا ہے وہ پاکستان کا شدید گرم موسم ہے۔ چونکہ سال کا زیادہ تر حصہ درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوتا ہے، اس لیے عام سائیکل کی سواری خاص طور پر دوپہر کے اوقات میں کافی مشکل ہو جاتی ہے۔
اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ عام سائیکل کو ایک چھوٹے اور سستے الیکٹرک کٹ کی مدد سے برقی سائیکل میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ کٹ، جس میں بیٹری اور موٹر شامل ہوتی ہے، تقریباً تیس سے چالیس ہزار روپے میں دستیاب ہے۔ اگر یہ مقامی سطح پر تیار کی جائے تو اس کی قیمت مزید کم ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کی تیاری اور دستیابی کو ترجیح دے، تاکہ عوام کو سستی اور ماحول دوست سواری میسر آ سکے۔ اگر یہ کٹ اور بیٹری سبسڈی پر یا آسان اقساط پر مہیا کی جائیں تو غریب طبقے کے لیے یہ کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔
برقی سائیکل نہ صرف زیادہ فاصلے طے کرنے میں مددگار ثابت ہو گی بلکہ بزرگوں اور خواتین کے لیے بھی آسانی فراہم کرے گی۔ اس کے ذریعے روزمرہ کے معمولات جیسے بازار جانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا یا کام پر جانا آسان بن جائے گا۔ یہ ایک صحت بخش، کم خرچ، خاموش اور ماحول دوست سواری ہے جو کہ ملک کے لاکھوں افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ سائیکل ہر عمر کے افراد کے لیے کارآمد ہے۔ بچے، بوڑھے، خواتین، خاص طور پر دیہاتی علاقوں کی خواتین جو ہسپتال یا اسکول تک رسائی حاصل کرنے میں دشواری محسوس کرتی ہیں، وہ آسانی سے سائیکل کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا سکتی ہیں۔ اس کے استعمال سے نہ صرف جسمانی ورزش ہوتی ہے بلکہ دل، پھیپھڑوں اور مجموعی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں اقسام کے ممالک میں سائیکل کا استعمال تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ نیدرلینڈز، ڈنمارک، جرمنی اور جاپان میں سائیکل کلچر کو بھرپور فروغ دیا جا رہا ہے جہاں مخصوص سائیکل لین، پارکنگ اور سہولیات موجود ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جیسے چین، ویتنام، اور بنگلہ دیش میں بھی سائیکل کا استعمال بڑھ رہا ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں ٹریفک جام اور ایندھن کی قیمتیں بڑا مسئلہ ہیں۔ چین نے خاص طور پر الیکٹرک بائیسکل کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا ہے اور اب اس کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ سائیکل استعمال کرنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ سائیکل صرف ایک سادہ سواری نہیں بلکہ ماحول دوست، صحت مند اور معیشت دوست ذریعہ آمد و رفت ہے جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں معاشروں میں یکساں اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
سائیکل کے فروغ سے نہ صرف شہر کی ٹریفک میں بہتری آئے گی بلکہ ایندھن کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کی بھی بچت ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر شہروں میں سائیکل لین بنائی جائیں، ٹریفک قوانین کو بہتر بنایا جائے اور عوام میں آگاہی پھیلائی جائے تو اس منصوبے کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں ایسے کم خرچ، سادہ اور پائیدار حل اپنانے ہوں گے جو ایک عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔ سائیکل نہ صرف ایک سواری ہے بلکہ غربت، صحت، آلودگی اور مہنگائی جیسے مسائل کا سستا اور مؤثر حل بھی ہے۔