بجلی کے بارے میں حکومت اتنی بے بس کیوں ہے؟
بجلی کا مسئلہ دن بدن بدتر ہو تا جارہا ہے۔ بجلی کا فی یونٹ 70 روپے کو پہنچ رہا ہے جو کہ اس خطہ میں سب سے مہنگا ہے یا شائد دنیا بھر میں سب سے مہنگا ہے۔ بعض ماہرین اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کے یہ صورتحال رہی تو ایک یونٹ سو روپے کا ہو جائیگا۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں یہ ہی یونٹ پاکستانی روپے میں بیس روپے کے لگ بھگ ہے۔ ایک عام انسان سے لے کر کیا تاجر اور کیا صنعت کار سب پریشان ہیں کہ آخر کیسے بل ادا کیا جائے۔ حکومتی قرضہ ہے تو وہاں صورتحال خاصی خوفناک ہو چکی ہے اور گردشی قرضہ تین ہزار ارب سے بھی بڑھ چکا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت کو ٹھوس پالیسی دینے میں ناکام ہے۔ حکومت اِن آئی پیپز کے ہاتھوں کیوں بے بس ہے کچھ سوال ہیں جن کہ جواب ادھورے ہیں اور حکومت عوام کو بتا بھی نہیں رہی۔
جب ملک میں بجلی کے نظام کی ترسیل بائیس ہزار میگا واٹ ہے تو پینتالیس ہزار میگاواٹ کے پلانٹ کیوں لگائے گئے؟ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سال کے پیشتر حصہ میں بجلی کی کھپت بیس ہزار میگا واٹ سے بھی کم ہوتی ہے حتی کے انتہائی ضرورت کے وقت بھی بجلی کی کھپت تیس ہزار سے کم رہتی ہے۔ اکثر یہ آواز اٹھائی جاتی ہے کہ ان آئی پیز کا آڈٹ کیا جائے کہ کیا واقع یہ جتنے پیسے حکومت سے لیتے ہیں اتنی کپیسٹی کے پلانت بھی ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کئی آئی پیز اپنی کپیسٹی سے زائد پیسے وصول کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ان آئپیپز کو نوازنے کی بھی خبریں ہیں اور ہر کسی سے من پسند سمجھوتے کیے گے ہیں۔ اِس چیز کو واضح کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ آئی پی پی کا آڈٹ فوری طور پر کروایا جائے۔
چند آئی پی پی نے اپنی مدت پوری کر لی تھی جس کہ بعد ان کی ملکیت حکومت کو ٹرانسفر ہو جانی تھیں مگر ایسا کیوں نہ کیا گیا بلکہ ان معاہدوں کی توسیع بھی کر دی گئی۔ کئی آئی پیپز حکومت کی ملکیت ہیں ان آئی پیز کے کپیسٹی چارجز کیوں وصول کیے جاتے ہیں۔ حکومت ان آئی پیپیزکو پرائیوٹ سیکٹر میں کیوں دینا چاہ رہی ہے جو اِس کی ملکیت ہیں۔ اِس سے حکومت کو کپیسٹی چارجز کی مد میں مزید بوجھ بڑھے گا جو پہلے ہی خطرناک حد کو چھو رہا ہے۔
سیاسی جماعتیں اپنا شور مچا رہی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اِس وقت بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ ورلڈ بنک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے،چند اہم ممالک اور غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدوں کی وجہ سے پاکستان اب آسانی سے ان مُشکلات سے نہیں نکل سکتا۔ اِس میں اصل قصور ان لوگوں کا ہے جنہوں نے یہ معاہدے کیئے۔اور ان میں سے جب کچھ معاہدے ختم ہو رہے تو ان کو توسیع دی۔ اگر چہ حکومت اِس ضمن میں کچھ اقدامات لئیے ہیں مگر حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہ بہت کم ہیں۔ حکومت اگر غیر ملکی معاہدوں کو کچھ نہیں کر سکتی تو ملکی کمپنیوں کے مالکان سے بات چیت کر کے ان آئی پی پی کو خرید لے تاکہ اِس مسئلہ میں کچھ تو بہتری آئے۔
پچھلے پینتیس برسوں میں تمام حکومتوں نے بجلی کے شعبہ کو صیع طور پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی جسکے باعث یہ مسئلہ دن بدن خراب ہوتا چلا گیا ضرورت اِس امر کی ہے کہ اب اِس مسئلہ کو حل کیا جائے۔ مگر آئی پیز دھڑلے سے مال بنا رہیں ہیں اور حکومت کسی دباؤ یا خوف کی وجہ سے خاموش ہے اور اِس مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے تینوں جماعتوں کے دور میں گردشی مسئلہ موجود تھا۔ پی پی پی ، پی ایم ایل (ن) ، اور پی ٹی آئی تینوں اپنے ادوار میں اِس مسئلہ کے حل کا دعوی کرتے رہے مگر یہ مسئلہ دن بدن خراب ہو تا رہا ۔ اگر ملک کی معیشت کو بچانا ہے اور عوام کو اِس اذیت سے نکالتا ہے تو حکومت کو فوری طور پر قدم اٹھانے ہوں گے۔ اور بجلی کی قیمت کو مناسب سطح پر لانا ہوگا۔