روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی حکومتوں کی ذمہ داری ہے
پنجاب حکومت اس وقت مختلف انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹیشن منصوبوں پر کام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سڑکوں، پلوں اور میٹرو منصوبوں کا مقصد سہولت فراہم کرنا اور ترقیاتی پہیہ چلانا ہے، لیکن صرف انفراسٹرکچر بنا دینا کافی نہیں۔ صوبائی حکومت پر لازم ہے کہ وہ عوام کو کاروبار کے مواقع اور روزگار فراہم کرے تاکہ لوگوں کو عزت کے ساتھ اپنے گھروں کا چولہا جلانے کا راستہ مل سکے۔ بدقسمتی سے آج پنجاب کے لوگ غربت، بیروزگاری اور مایوسی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کا رخ عمرہ یا وزٹ ویزوں پر کرتے ہیں لیکن بدترین غربت کی وجہ سے انہیں بھیک مانگنے جیسی حرکات میں ملوث ہونا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اب سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کی طرف سے شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ پاکستانی خاص طور پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں جو ملک کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔
یہ صورتحال صرف خلیجی ممالک تک محدود نہیں رہی بلکہ پنجاب کے لوگ یورپ اور مغربی ممالک جانے کے لیے انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اپنے اثاثے اور زندگیاں داؤ پر لگا رہے ہیں۔ درجنوں نوجوان ہر سال جعلی راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں گرفتار ہو جاتے ہیں، تشدد کا نشانہ بنتے ہیں یا کشتیاں الٹنے کے حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایران اور بلوچستان کے علاقوں میں بھی کئی دفعہ ایسے دلخراش واقعات پیش آ چکے ہیں جہاں سینکڑوں پنجابی نوجوان گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ غربت اور بیروزگاری نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ شدت پسند گروپوں کا شکار ہو رہا ہے اور اس سے معاشرے کا امن بھی متاثر ہو رہا ہے۔
آج پنجاب میں کاروبار بند ہو رہے ہیں، صنعتیں سکڑ رہی ہیں، زرعی شعبہ جو کبھی پنجاب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا، تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ کسان حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے بدترین حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے لیے فصلوں کی قیمتیں مناسب نہیں، پانی کی قلت ہے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں اور حکومتی سبسڈی یا معاونت کا کوئی منظم پروگرام موجود نہیں۔ کسان جو کبھی خوشحال پنجاب کا نشان ہوا کرتے تھے آج قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
دنیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ حال ہی میں رپورٹ آئی ہے کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کی جی ڈی پی چھ کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اور اب وہ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکی ہے۔ حالانکہ کیلی فورنیا بھی کبھی صرف زرعی ریاست تھی لیکن آج وہ جدید ٹیکنالوجی، انوویشن اور کاروباری مواقع کا گڑھ بن چکی ہے۔ اسی طرح سنگاپور، جو قدرتی وسائل سے تقریباً خالی ہے، اپنی پالیسیوں، حکومتی وژن اور کاروبار دوست ماحول کی بدولت دنیا کا ایک اہم تجارتی مرکز بن چکا ہے۔ ان مثالوں سے سبق لیتے ہوئے پنجاب حکومت کو بھی اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کرنا ہوگا۔
اگر حکومت سنجیدگی سے پنجاب کے عوام کے لیے کاروبار اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر توجہ دے تو نہ صرف عام آدمی کو باعزت روزی کا ذریعہ ملے گا بلکہ نوجوانوں کا بیرون ملک غیر قانونی ہجرت کا رجحان بھی کم ہوگا، ملک کی ساکھ بہتر ہوگی اور معاشرتی استحکام بھی آئے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر پنجاب حکومت یہ اقدامات کرتی ہے تو سیاسی طور پر بھی اسے فائدہ ہوگا اور پاکستان مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا کیونکہ عوام ہمیشہ ان حکومتوں کو یاد رکھتے ہیں جو ان کے مسائل حل کرتی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں پر بھی سرمایہ کاری کرے جن سے براہ راست کاروبار اور روزگار پیدا ہو۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دیا جائے، نوجوانوں کو سستے قرضے دیے جائیں، زرعی شعبے کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ مضبوط کیا جائے، نئی منڈیاں قائم کی جائیں، برآمدات بڑھانے کے لیے سپیشل اکنامک زون بنائے جائیں اور صوبے میں ایسی صنعتوں کی بنیاد رکھی جائے جو عالمی منڈی سے جڑ سکیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو انفراسٹرکچر کے منصوبے وقتی سہولت تو دے سکتے ہیں لیکن غربت اور مایوسی کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے۔
حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ حقیقی ترقی سڑکوں اور پلوں سے نہیں بلکہ خوشحال اور باعزت شہریوں سے آتی ہے۔ جب پنجاب کے لوگ خوشحال ہوں گے، باعزت زندگی گزاریں گے، اپنی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کریں گے تو نہ صرف صوبہ بلکہ پورا ملک ترقی کرے گا۔ حکومت کے پاس آج موقع ہے کہ وہ سنجیدگی سے اس سمت میں کام کرے ورنہ غربت، بے روزگاری اور ہجرت کے مسائل بڑھتے جائیں گے اور ان کا حل پھر اور زیادہ مشکل ہو جائے گا۔