BusinessLatest

پنجاب میں تجاوزات کے خلاف کارروائی اور متاثرین کا مستقبل

پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں شہروں، خصوصاً لاہور میں تجاوزات کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ یہ اقدام بظاہر شہر کی خوبصورتی، ٹریفک کے بہاؤ کو بہتر بنانے اور شہریوں کی سہولت کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن اس کے کچھ سنجیدہ سماجی اور معاشی پہلو بھی ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ تجاوزات نے واقعی ہمارے شہروں کو بدصورت، بے ترتیب اور ناقابلِ برداشت بنا دیا ہے۔ خریداری کے مراکز میں چلنے کی جگہ نہیں بچی، پارکنگ کی سہولتیں ناپید ہو چکی ہیں، اور اکثر گاہک پریشان ہو کر بغیر خریداری کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔

یہ صورتحال ان دکانداروں کے لیے بھی نقصان دہ ہے جو مارکیٹوں میں بھاری کرایے دے کر اپنی دکانیں چلاتے ہیں۔ جب ان کے سامنے سڑکوں پر غیر قانونی سٹالز لگ جاتے ہیں تو ان کی دکانوں کا منظر بھی چھپ جاتا ہے اور گاہک سستے داموں فٹ پاتھ پر موجود ریڑھی یا ٹھیلے والے سے خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف قانونی دکانداروں کے کاروبار کو دھچکا لگتا ہے بلکہ کرایہ، ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز کا بوجھ بھی ان کے لیے دوہرا ہو جاتا ہے۔

تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران جو افراد متاثر ہو رہے ہیں ان کی تعداد سینکڑوں یا درجنوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سڑکوں، فٹ پاتھوں اور خالی جگہوں پر اپنے سٹالز لگا رکھے تھے۔ بلاشبہ یہ عمل قانونی طور پر غلط تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر روزی کماتے تھے اور ان کے لیے یہی ایک ذریعہ معاش تھا۔

اگرچہ قانون کی حکمرانی قائم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، لیکن ایک فلاحی ریاست میں عوام کے روزگار اور بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ متاثرہ افراد کے لیے متبادل انتظامات بھی کرے۔ انہیں کسی مناسب مقام پر جگہ دی جائے جہاں وہ عزت کے ساتھ اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔ ماضی میں لاہور اور دیگر شہروں میں سستے بازاروں اور وینڈر زونز کے منصوبے بنائے گئے تھے، لیکن یا تو وہ مکمل نہیں ہو سکے یا وہ مناسب طریقے سے نہیں چلائے جا سکے۔ اس بار حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ ان ہزاروں افراد کا کیا بنے گا جن کی واحد آمدنی کا ذریعہ چھن گیا ہے۔

مزید یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ شہری منصوبہ بندی میں طویل المدتی حکمت عملی اپنائے تاکہ آئندہ دوبارہ تجاوزات جنم نہ لے سکیں۔ یہ حکمت عملی قانون کے نفاذ، عوامی آگاہی، مارکیٹوں کے ڈیزائن، ریڑھی بانوں کے لیے مخصوص مقامات کی نشاندہی، اور منصفانہ نگرانی پر مشتمل ہو۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ بااثر افراد نے بھی تجاوزات کے ذریعے سرکاری زمینوں پر قبضے جما رکھے تھے، جن کے خلاف کارروائی خوش آئند ہے۔ لیکن غریب ریڑھی بان اور سٹال ہولڈرز کو بھی وہی نظر سے دیکھنا زیادتی ہوگی۔ ان کے لیے ایک الگ حکمت عملی کی ضرورت ہے جو انہیں قانونی دائرے میں رہتے ہوئے روزگار کا موقع دے سکے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تجاوزات کے خلاف کارروائی ایک اچھی شروعات ہے، لیکن اگر یہ انسانی پہلو کو نظرانداز کر کے صرف ظاہری خوبصورتی کے لیے کی جائے گی تو اس کے نتائج مزید غربت، بے روزگاری اور معاشرتی بے چینی کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ حکومت کو اس موقع کو معاشی انصاف کی مثال بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔