معاشرے میں انتہاپسندی اور جرائم میں تشویشناک حد تک اضافہ
موجودہ دور میں انتہا پسندی، نفرت، جرائم اور خوفناک واقعات معاشرتی بگاڑ کی سنگین علامتیں بن کے سامنے آرہی ہیں، جو ہمارے معاشرے کے اخلاقی اقدار کے زوال کو کو ظاہر کررہی ہیں۔ ان مسائل کی شدت حالیہ واقعے سے بھی جھلکتی ہے جب سیالکوٹ میں ایک ساس نے چند قریبی رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اپنی بہو کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ یہ دل دہلا دینے والا واقعہ صرف ایک فرد کی سفاکیت نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمیں اپنی سماجی اقدار پر نظر ثانی کرنے اور تشدد کے بجائے تحمل، محبت اور باہمی احترام کے رویے اپنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس بگاڑ کو روکا جا سکے۔
گزشتہ چالیس سالوں میں پاکستان کے معاشرے کو کئی عوامل نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ مولاجٹ جیسی فلموں نے تشدد کو ہیرو ازم کے طور پر پیش کیا، جب کہ ٹی وی ڈرامے خاندانی تنازعات، سازشوں اور دھوکہ دہی کو معمول بنا کر اخلاقی گراوٹ کو فروغ دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے فقدان اور مالی بدعنوانی نے معاشرتی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ ان تمام عوامل نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جہاں برداشت، ایمانداری، اور مثبت رویے معدوم ہو چکے ہیں۔
اب سوشل میڈیا اور ٹاک شوز اس زوال کو مزید ہوا دے رہے ہیں، جہاں جھوٹی خبریں اور سطحی تجزیے معاشرے کو گمراہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سنجیدہ مسائل پر طنزیہ اور مضحکہ خیز گفتگو نے سنجیدگی کو ختم کر دیا ہے اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے۔ یہ سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر رہے ہیں جو اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اور اگر فوری طور پر سدھار کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ گراوٹ مزید گہری ہوتی جائے گی۔
ہمارا موجودہ تعلیمی نظام جو زیادہ تر مادی کامیابی پر مرکوز ہے، معاشرتی اقدار کے زوال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ نظام طلباء کو صرف نمبرز، گریڈز اور نوکری کے حصول کی دوڑ میں لگا دیتا ہے، جبکہ اخلاقیات، کردار سازی اور انسانیت کے اصولوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسکول اور کالج میں تربیت کا مقصد صرف مقابلے بازی اور مادی فوائد حاصل کرنا بن گیا ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں میں خود غرضی، بے حسی اور دوسروں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کا رویہ پروان چڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال ہمارے معاشرے میں باہمی احترام، برداشت اور سماجی انصاف کی کمی کا باعث بنی ہے، جس سے معاشرتی توازن بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان کا عدالتی نظام بھی پیچیدہ اور سست ہے- دنیا بھر میں پاکستان کا عدالتی نظام سب سے کم درجہ بندی میں شامل ہے اور یہ اس ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ بن چکا ہے۔ مقدمات کی طویل التوا اور عدلیہ میں سیاسی مداخلت نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو انصاف کی اُمید میں کئی سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بے شمار مقدمات عدالتوں میں لٹک کر رہ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں غریب اور بے سہارا لوگ مزید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے عدالتی نظام کو مکمل طور پرتبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انصاف کا عمل تیز، شفاف اور عوامی مفاد کے مطابق ہو۔ اس سے جرائم کی شرح میں واضح کمی آئے گی۔
جاپانی معاشرہ کم جرائم، اعلیٰ سماجی اقدار اور باہمی احترام کی وجہ سے دنیا بھر میں مثالی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد تین اہم عناصر پر ہے: تعلیم، معاشرہ، اور مذہب۔ جاپانی تعلیمی نظام بچوں میں نظم و ضبط، اخلاقیات اور ذمہ داری کا شعور پیدا کرتا ہے، جہاں اخلاقی تربیت نصاب کا لازمی حصہ ہے۔ معاشرہ افراد کو باہمی احترام، اجتماعی فلاح، اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تلقین کرتا ہے، جبکہ روایتی مذہبی عقائد انسان دوستی، فطرت سے محبت اور اندرونی سکون پر زور دیتے ہیں۔ یہ تمام عناصر مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جہاں جرائم کی شرح کم اور سماجی اقدار مضبوط ہوتی ہیں، اور لوگ ایک دوسرے کے لیے عزت و احترام کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔
ہمیں بھی درپیش مسائل کے حل کے لیے تعلیمی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنی چاہیں۔ نصاب میں اخلاقی تعلیم، سماجی شعور اور معاشرتی ذمہ داری جیسے مضامین کو شامل کیا جائے۔ اساتذہ کی تربیت کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ نہ صرف علم فراہم کریں بلکہ کردار سازی میں بھی کردار ادا کریں۔ والدین کو بھی اس بات کا شعور دلایا جائے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
مرکزی میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ایسے مواد کو فروغ دینا چاہیے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائے، بجائے اس کے کہ وہ جھوٹی خبروں، انتہا پسندی، سازشوں، دھوکہ دہی اور بدعنوانی کو عام کریں۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ عوام کو سچائی، تحمل، ایمانداری، اور انصاف کے اصولوں پر مبنی پروگرامز اور مواد فراہم کرے، جو لوگوں کی شخصیت کو نکھارنے اور ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہو۔ مثبت کہانیوں، تعلیم و تربیت پر مبنی پروگرامز، اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے مواد کے ذریعے نہ صرف عوام کو شعور دیا جا سکتا ہے بلکہ انہیں اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے اور دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی ترغیب بھی دی جا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی میڈیا کے طاقتور کردار کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے میڈیا کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کی تعمیر میں حقیقی کردار ادا کر سکے۔
مزید برآں، ہمیں ایسی پالیسیاں متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو مادی کامیابی کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیں تاکہ معاشرے کو ان مسائل سے نکالا جا سکے۔