پاکستانی کسان کی بے بسی کی داستان
پاکستان کے کسان ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں کیونکہ انہیں اپنی گندم کی فصل کا صحیح قیمت نہیں مل رہی۔ یہ المیہ ہر سال دہرایا جاتا ہے، لیکن اس بار پنجاب حکومت نے کوئی سپورٹ پرائس تک اعلان نہیں کیا۔ کسانوں کے لیے یہ صورتحال انتہائی مایوس کن ہے، خاص طور پر جب وہ مہنگے بیجوں، کھادوں، کیڑے مار ادویات، بجلی اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات اٹھا کر فصل تیار کرتے ہیں، لیکن آخر میں انہیں منڈی میں وہ قیمت نہیں ملتی جو ان کے محنت کا حق ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اس بار سپورٹ پرائس کا اعلان کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ ایک دانستہ پالیسی ہے تاکہ مڈل مین کو فائدہ پہنچایا جا سکے؟ حقیقت یہ ہے کہ سپورٹ پرائس کا نظام اکثر مڈل مین اور تاجروں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جو کسانوں کو کم قیمت پر فصل بیچنے پر مجبور کرتے ہیں اور بعد میں منڈی میں مہنگے داموں فروخت کر کے منافع کما لیتے ہیں۔ سرکاری ادارے بھی اکثر انہی مڈل مین کے ذریعے ہی خریداری کرتے ہیں، جس سے کسانوں کو براہ راست فائدہ نہیں پہنچتا۔
پاکستانی کسانوں کو ہمسایہ ملک بھارت کے پنجاب کے کسانوں کے مقابلے میں بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات اور بجلی کہیں زیادہ مہنگی ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان اشیا پر مافیا کا کنٹرول ہے جو مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ان مافیا کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے کسان مجبور ہو کر مہنگے داموں یہ ضروریات خریدتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ حکومت چھوٹے کسانوں کو ان کی فصل کا صحیح قیمت دلانے میں ناکام رہی ہے۔ جب فصل منڈی میں آتی ہے تو سرکاری ادارے یا تو خریداری نہیں کرتے یا پھر کم قیمت پر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے کسانوں کو مجبوراً مڈل مین کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت چاہے تو وہ کسانوں کو براہ راست منڈی سے جوڑنے کے لیے جدید زرعی مارکیٹس قائم کر سکتی ہے، جہاں کسان اپنی پیداوار بغیر کسی مڈل مین کے فروخت کر سکیں۔
اس کے علاوہ، حکومت کسانوں کو اسٹوریج کی سہولیات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اگر کسان اپنی فصل کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کر سکیں تو وہ مڈل مین کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور جب قیمتیں بہتر ہوں تو اپنی پیداوار فروخت کر سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے جدید گوداموں اور کولڈ اسٹوریج کا ہونا ضروری ہے، جس پر حکومت نے کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔
حکومت کی زرعی پالیسیوں میں واضح طور پر کوئی جامع حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ کسانوں کو مالی مدد، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی، اور منڈیوں تک براہ راست رسائی دینے کے بجائے، حکومت صرف وقتی اقدامات تک محدود رہتی ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن اس شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو کسانوں کا حوصلہ پست ہو جائے گا اور ملک کی خوراک کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
آخر میں، یہ سوال اہم ہے کہ کیا حکومت واقعی کسانوں کے مسائل کو سمجھتی ہے؟ یا پھر وہ صرف چند طاقتور مڈل مین اور تاجروں کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتی ہے؟ اگر زراعت کو بچانا ہے تو حکومت کو فوری طور پر کسان دوست پالیسیاں بنانی ہوں گی، سپورٹ پرائس کا اعلان کرنا ہوگا، مڈل مین کے استحصال کو روکنا ہوگا، اور کسانوں کو جدید سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔ ورنہ، یہ ملک کی معیشت کے لیے ایک بڑا سانحہ ثابت ہوگا۔