EconomyLatest

عالمی کساد بازاری کا خطرہ اور اسکے ممکنہ اثرات

دنیا اس وقت ایک ممکنہ عالمی کساد بازاری (recession) کے دہانے پر کھڑی ہے اور معاشی تجزیہ نگاروں کی بڑی تعداد اس خدشے کا اظہار کر رہی ہے کہ آنے والے مہینوں میں عالمی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں دنیا کے مختلف ممالک پر اس بحران کے اثرات یکساں نہیں ہوں گے بلکہ مختلف ممالک پر اس کے اثرات ان کی معیشت کی ساخت، برآمدات و درآمدات کے تناسب، قرضوں کی سطح، صنعتی پیداوار اور عوامی پالیسیوں پر منحصر ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک، جیسے امریکہ، جرمنی، جاپان، فرانس اور برطانیہ چونکہ عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے وہاں پر کساد بازاری کے اثرات زیادہ شدید ہوں گے۔ امریکہ کی معیشت اگر سست روی کا شکار ہوئی تو دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹیں متاثر ہوں گی، سرمایہ کاری میں کمی آئے گی، ڈالر کی قدر میں ردوبدل ہو گا اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک مثلاً بنگلہ دیش، نیپال، یا بعض افریقی ممالک پر اس کا اثر نسبتاً کم ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا عالمی مالیاتی نظام سے انحصار محدود ہے، لیکن اندرونی مسائل کی وجہ سے وہاں بھی مہنگائی، بیروزگاری اور معیاری زندگی میں گراوٹ دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

جن ممالک کی معیشتیں برآمدات اور صنعتوں پر مبنی ہیں، جیسے چین، جنوبی کوریا، ویتنام، میکسیکو اور جرمنی، وہاں کساد بازاری کا فوری اور گہرا اثر متوقع ہے کیونکہ عالمی طلب میں کمی کے باعث ان کی برآمدات سکڑ جائیں گی۔ خام مال، مشینری، آٹو موبائل اور الیکٹرانکس کی صنعتیں بری طرح متاثر ہوں گی۔ سروس سیکٹر، خصوصاً بینکنگ، انشورنس، ٹریول اور ایوی ایشن انڈسٹری کو بھی شدید جھٹکا لگ سکتا ہے کیونکہ ان سروسز کی مانگ بحران کے دوران کم ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف زراعت، فوڈ پراسیسنگ، اور صحت جیسے شعبے نسبتاً مستحکم رہیں گے کیونکہ یہ بنیادی ضروریات سے جڑے ہوئے ہیں۔

تیل کی قیمتیں کساد بازاری میں ہمیشہ ایک اہم بحث رہی ہیں۔ جب عالمی معیشت سست ہو جاتی ہے تو توانائی کی طلب کم ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب، یو اے ای، کویت اور ایران کی معیشتیں تیل پر انحصار کرتی ہیں، اس لیے اگر تیل کی قیمتیں گرتی ہیں تو ان کے بجٹ میں خسارہ پیدا ہو سکتا ہے، ترقیاتی منصوبے مؤخر کیے جا سکتے ہیں اور ان ممالک کی مالی پالیسیوں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ اگر اوپیک ممالک پیداوار کم کرکے قیمتوں کو سنبھالنے کی کوشش کریں، تب بھی عالمی طلب میں کمی قیمتوں کو قابو میں رکھے گی۔ پاکستان جیسے درآمدی ممالک کے لیے کم تیل کی قیمت وقتی ریلیف فراہم کر سکتی ہے لیکن مجموعی معاشی سست روی اس فائدے کو زائل کر سکتی ہے۔

ریئل اسٹیٹ سیکٹر بھی اس بحران سے شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ جب معیشت سست روی کا شکار ہو تو عوام کی قوت خرید متاثر ہوتی ہے، لوگ نئے مکانات یا کمرشل پراپرٹیز خریدنے سے ہچکچاتے ہیں، اور سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔ بینک قرضے دینے میں محتاط ہو جاتے ہیں، مارگیج کی منظوری کم ہو جاتی ہے، اور پراپرٹی کی قیمتوں میں یا تو جمود آ جاتا ہے یا کمی شروع ہو جاتی ہے۔ امریکہ، کینیڈا، اور یورپ جیسے ممالک جہاں پراپرٹی مارکیٹ بڑی اور فعال ہے، وہاں ریئل اسٹیٹ بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں پراپرٹی پہلے ہی مہنگی ہے، تو بحران میں وہاں کی مارکیٹ مزید سست ہو جائے گی۔ کنسٹرکشن سیکٹر چونکہ ریئل اسٹیٹ سے جڑا ہوا ہے، اس لیے روزگار کے مواقع بھی متاثر ہوں گے۔

مجموعی طور پر، عالمی کساد بازاری دنیا کے لیے ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتی ہے، اور اگر عالمی ادارے، حکومتیں اور مالیاتی پالیسی ساز بروقت اور موثر اقدامات نہ کریں تو اس کے اثرات دیرپا اور تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہر ملک کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی، مقامی صنعتوں کو فروغ دینا ہوگا، اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے معاشی تحفظ فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ اس عالمی بحران کا سامنا کر سکیں۔