پاکستان میں بجلی باعث رحمت بھی اور باعث زحمت بھی
بجلی آج کے دور میں نعمت سے کم نہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بجلی نے ہر طرف تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بجلی کے بلوں سے ہر کوئی پریشان ہے چاہے۔ وہ گھریلو صارف ہو یا تاجر یا پھر صنعت کار۔ انتہائی مہنگی بجلی نے معیشت کو تباہ حال کر دیا ہے اِس کی وجہ سے پاکستانی مصنوعات بھی غیر ملکی منڈی میں مقابلہ نہیں کر پا رہیں۔ اتنی مہنگی بجلی دینے کے باوجود گردشی قرضہ کا مسئلہ انتہائی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ساتھ ساتھ سرکلر ڈیبٹ بھی پاکستان کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ بجلی کے شعبہ میں تباہی کی تین بڑی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ ملک کی بجلی بنانے کی صلاحیت 45,000 میگا واٹ ہے جبکہ بجلی ترسیل کرنے کا نظام صرف 22,000 میگا واٹ ہے ۔ بجلی بنانے والے کارخانوں سے معاہد ہ کی شق کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال کیپسٹی پینمٹ کی مد میں 330 ارب روپے کا قرضہ چڑھتا ہے۔ اگر حکومت نیک نیتی سے ٹرانسمیشن لائنز پر پیسے لگاتی اور پاکستان ساری کپیسٹی کو استعمال کرنے کے قابل ہوتی تو پاکستان سرکلر ڈیبٹ کے قرضے سے بچ سکتا تھا ۔
پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ بجلی چوری کا ہے۔ بعض علاقوں میں بجلی چوری 80 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر صوبائی حکومتیں اِس بجلی چوری کو روکنے میں کردار ادا نہیں کرتیں۔ اِس کا حل یہ ہے کہ بجلی کی ترسیل کا نظام صوبائی حکومتوں کے سپر د کر دیا جائے اور پھر یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ بجلی کی قیمت صارف سے وصول کریں یا پھر اپنے بجٹ میں سے ادا کریں۔ بجلی کی ترسیل کو نجی شعبہ کے حوالے کر دینا بھی ایک بہتر فیصلہ ہو گا۔ جیسے کے جن لوگوں نے ٹیلی فون اور بینکنگ کے نظام میں واضح فرق دیکھا ہے۔
تیسرا بڑا مسئلہ درآمدی تیل گیس اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ ہیں۔ خصوصا ً تیل اور گیس کے پلانٹ بہت مہنگے پڑتے ہیں اور ان کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ ماہرین اِس کا حل یہ بتاتے ہین کہ ان کو دوسرے ذرائع پر تبدیل کر دیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو ان کو مقامی کو ئلے پر شفٹ کر دینا چاہیئے۔اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو حکومت کو ان بجلی گھروں کو خرید لینا چاہیئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے بجلی گھروں کا انتظام ملک میں موجود صنعت کار گروپوں کو دے دیا جائے۔ اِس طرح یہ موجودہ نظام سے نکل جائیں گے۔
جب تک حکومت ان تینوں مسئلوں کا حل نہیں کرتی ۔ بجلی کے نظام میں بہتری نہیں آسکتی۔ اگر حکومت ان مسائل کو حل کر لیتی ہے تو نہ صرف اِس سے حکومت ک سبسڈی کی مد میں اربوں روپے کی بچت ہو گی بلکہ زرمبادلہ پر بھی بوجھ کم ہوگا۔ اِس کے ساتھ ساتھ عوام اور صنعتی شعبہ کو سستی بجلی کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت غیر ضروری اقدام کی بجائے ٹھوس اقدام اُٹھائے اور ان مسائل کو حل کرے۔