پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ اس سے عوام کے بجٹ پر برا اثر پڑے گا اور مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ تاہم تمام معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کے پاس پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں پر بھی سبسڈی ختم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اس وقت عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے جو کہ 117 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے۔ تجزیہ کار تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کی توقع کر رہے ہیں۔ پاکستان کا تجارتی خسارہ اس سال پچاس بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور ہمیں فوری طور پر اپنی برآمدات کی ادائیگی کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے مالی امداد کے لیے خلیجی ممالک، چین اور دیگر دوست ممالک سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اپنی امداد کو آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے مشروط کیا ہے۔ شاید ہی کوئی ماہر معاشیات ہو جو پاکستان میں سری لنکا کی صورت حال کو اگلے دو تین مہینوں میں ہوتا ہوا نہ دیکھ رہا ہو۔ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ موجودہ حکومت بھی درآمدی بل کو کم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے جو اس مالی سال کے دوران بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
اگرچہ بعض سیاسی حلقے اس بات کی وکالت کر رہے ہیں کہ ہمیں روس سے سستا تیل خریدنا چاہیے لیکن یہ غیر منطقی بات ہے جو بلکل ممکن نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کے ہم اپنی مصنوعات مغربی ممالک کو برآمد کریں اسکے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور خلیجی ممالک سے مالی امداد لیں اور ان کے پیسوں سے روسی تیل خریدیں۔ ہمیں روس کے ساتھ اپنی تجارت کو بھی بڑھانا چاہیے۔ ماضی میں روسی نے تکنیکی اور مالی مدد فراہم کی ہے۔ گڈو بیراج اور پاکستان اسٹیل مل اس کی ایک مثال ہیں۔ ہمیں چین کے ساتھ بھی اپنے اقتصادی تعاون کو بڑھانا ہے۔ ایک بار جب ہم اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کنٹرول میں لے آئیں اور روپے کو مستحکم کرنے کے قابل ہو جائیں گے تو معاشی محاذ پر چیزیں بہتر ہونا شروع ہو جائیں گی۔