Featured

انسانی اسمگلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کے خوفناک نتائج

انسانی اسمگلنگ دنیا بھر میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور پاکستان میں بھی اس کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے اس مسئلے کی شدت کو اجاگر کیا ہے۔ ان میں سب سے دل دہلا دینے والا واقعہ پچھلے مہینےمیں پیش آیا جب یونان کے قریب ایک کشتی سمندر میں ڈوب گئی، جس میں سینکڑوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان مسافروں میں کئی پاکستانی بھی شامل تھے، جن میں کچھ بچے صرف بارہ یا تیرہ سال کے تھے۔ یہ المناک واقعہ انسانی اسمگلنگ کے بھیانک پہلو کو نمایاں کرتا ہے، جہاں لوگ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلتے ہیں۔

یورپ پہنچنے کی خواہش میں لوگ اپنی جمع پونجی لٹانے اور جان جوکھم میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ غیر قانونی راستوں کے ذریعے سفر کرنے والے یہ افراد اکثر کشتیوں پر سمندر عبور کرتے ہیں یا ترکی اور مشرقی یورپ سے ہو کر مغربی یورپ پہنچنے کے لیے انتہائی دشوار گزار راستے اختیار کرتے ہیں۔ اس سفر میں بھوک، سردی، سرحدی جھڑپوں، اور کشتیوں کے ڈوبنے جیسے خطرات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ یونان کے واقعے میں بھی یہی ہوا، جہاں کشتی میں گنجائش سے زیادہ مسافر تھے، اور انسانی اسمگلنگ کے مجرموں کی غفلت کے باعث سینکڑوں افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔

یہ رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟ اس کی بنیادی وجوہات میں پاکستان کی گھٹن زدہ معاشرت، معاشی بدحالی، غربت، بے روزگاری، اور قانون کی حکمرانی کا فقدان شامل ہیں۔ لوگ اس نظام سے اتنے تنگ آ چکے ہیں کہ وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کسی بھی طرح ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر نہیں، تعلیم کا معیار گرتا جا رہا ہے، اور معاشرتی دباؤ نے انہیں مایوسی کے گہرے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ وہ بہتر مستقبل کی تلاش میں اس قدر بے بس ہیں کہ انسانی اسمگلنگ جیسے خطرناک راستوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ میں ملوث مجرمانہ نیٹ ورک انتہائی منظم اور طاقتور ہیں۔ یہ عناصر غریب اور بے بس لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں خوابوں کے جھوٹے جال میں پھنساتے ہیں۔ یہ مجرم نہ صرف بھاری رقم بٹورتے ہیں بلکہ لوگوں کو ایسے خطرناک سفر پر بھیج دیتے ہیں جس کا اختتام اکثر موت پر ہوتا ہے۔ یہ نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔

یہ صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک ملک میں خوشحالی، آزادی، اور مواقع پیدا نہیں کیے جاتے۔ عوام کو محفوظ اور بہتر مستقبل کی یقین دہانی دی جائے، نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔ جب تک لوگوں کو اپنے ملک میں رہ کر بہتر زندگی گزارنے کا موقع نہیں ملے گا، وہ اسی طرح اپنی جان خطرے میں ڈال کر ملک چھوڑنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

یونان کے واقعے جیسے سانحات ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم ان مسائل کو سنجیدگی سے لیں اور ایسی پالیسیاں بنائیں جو عوام کو محفوظ، خوشحال، اور بہتر مستقبل فراہم کر سکیں۔ انسانی زندگی کی قدر کو سمجھنا اور اسے محفوظ بنانا ہر معاشرے کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔