مغربی دنیا میں صنعتیں واپس کیوں نہیں آ سکتیں
دنیا میں صنعتی پیداوار کے نقشے میں جو بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، ان کا تعلق صرف ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ عالمی معاشی نظام، مزدوری کے اخراجات، تعلیمی ترجیحات، اور صارفین کی جغرافیائی تبدیلیوں سے بھی ہے۔ آج جب ڈونلڈ ٹرمپ یا دیگر مغربی لیڈرز یہ بات کرتے ہیں کہ وہ صنعتی پیداوار کو واپس امریکہ یا یورپ لانا چاہتے ہیں، تو وہ دراصل ایک ایسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں جو موجودہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس خواہش کے پیچھے نیت اچھی ہو سکتی ہے کہ روزگار پیدا کیا جائے، معیشت کو مقامی سطح پر مضبوط کیا جائے، لیکن اس کے عملی مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور ان کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط عالمی رجحانات میں پیوستہ ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ مزدوری کے معاوضے کا ہے۔ ترقی پذیر ممالک جیسے چین، بھارت، بنگلہ دیش، ویتنام یا برازیل میں مزدور بہت کم معاوضے پر کام کرتے ہیں، جبکہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ میں مزدوری کی لاگت کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک ایسی فیکٹری جو پاکستان یا چین میں کم از کم اجرت پر ہزاروں مزدور رکھ سکتی ہے، وہی فیکٹری امریکہ یا جرمنی میں نہ صرف مہنگی پڑے گی بلکہ وہاں مزدور دستیاب بھی نہیں ہوں گے۔ مغربی ممالک نے پچھلی دہائیوں میں زیادہ تر نوجوانوں کو یونیورسٹی کی تعلیم کی طرف راغب کیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بلیو کالر یا دستی کام کرنے والے نوجوانوں کی شدید کمی ہو گئی ہے۔ نوجوان نسل اب سافٹ ویئر انجینئر، ڈاکٹر، وکیل یا MBA بننا چاہتی ہے، مشینوں پر کام کرنے یا فیکٹریوں میں محنت کرنے کی دلچسپی تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
مزید یہ کہ عالمی صارفین کی اکثریت اب ترقی پذیر دنیا میں رہتی ہے۔ جو کمپنیاں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں مصنوعات فروخت کرتی ہیں، ان کے لیے صارفین اب صرف نیویارک یا پیرس میں نہیں بلکہ دہلی، لاہور، شنگھائی، جکارتہ، اور ساؤ پالو میں بھی موجود ہیں۔ کمپنیاں اب وہیں پیداوار کرتی ہیں جہاں ان کی مارکیٹ ہے تاکہ لاجسٹکس کی لاگت بھی کم ہو اور مارکیٹ کو جلدی سپلائی بھی دی جا سکے۔ اس کے علاوہ چین، بھارت اور برازیل جیسے ممالک نے ایک ایسا نظام تیار کر لیا ہے جس میں نہ صرف سستے مزدور دستیاب ہیں بلکہ اعلیٰ تربیت یافتہ انجینئر، سپروائزر، اور کاروباری افراد بھی موجود ہیں۔ ان ممالک نے مکمل صنعتی ماحول پیدا کر لیا ہے جو پیداوار کے تمام مراحل کو سپورٹ کرتا ہے۔
اگر ہم مغربی دنیا کا جائزہ لیں تو ہوٹلوں، ریستورانوں، صفائی کے شعبے، چھوٹی فیکٹریوں، کھیتوں، اور تعمیراتی میدان میں پہلے ہی شدید مزدوروں کی قلت ہے۔ یہ خلا زیادہ تر ایشیائی یا افریقی تارکین وطن سے پورا کیا جا رہا ہے۔ اگر صنعتی پیداوار کو ان ممالک میں واپس لایا جائے گا تو یہ کمی اور شدت اختیار کر جائے گی کیونکہ مقامی افراد ان شعبوں میں کام کرنا پسند ہی نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ وہاں کی لیبر یونینز، ماحولیاتی قوانین، اور صحت و تحفظ سے متعلقہ قوانین بھی فیکٹریوں کو مہنگا اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایک عالمی کمپنی کبھی یہ رسک نہیں لے گی کہ وہ اپنی پوری سپلائی چین کو کسی مہنگے، غیر یقینی اور لیبر سے خالی ملک میں منتقل کرے۔
آخر میں، انفراسٹرکچر اور سپلائی چین کا مسئلہ بھی اہم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چین اور بھارت جیسے ممالک میں کاروباری ماحول اتنا تیز اور مؤثر ہو چکا ہے کہ اگر آج کوئی نئی مصنوعات مارکیٹ میں آتی ہے تو وہ اسے چند دنوں میں تیار اور فروخت کر سکتے ہیں۔ اس رفتار اور لچک کا مقابلہ مغربی بیوروکریسی اور ضوابط سے جکڑے سسٹمز نہیں کر سکتے۔ مزید یہ کہ مغربی دنیا میں مہنگے رہن سہن کے باعث چھوٹے سرمایہ دار بھی فیکٹریاں لگانے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے منافع بخش کاروبار چلانا ممکن نہیں ہوتا۔
ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا واپس مغرب میں منتقل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ نہ صرف معاشی طور پر غیر عملی ہے، بلکہ لیبر مارکیٹ، صارفین کی ترجیحات اور عالمی سپلائی چین کے ڈھانچے نے اسے ایک مستقل حقیقت بنا دیا ہے۔ اگرچہ کچھ ہائی ٹیک یا خودکار صنعتیں واپس آ سکتی ہیں، لیکن روایتی لیبر انٹینسیو مینوفیکچرنگ کا مستقبل ترقی پذیر ممالک میں ہی ہے۔