BusinessLatest

مقامی صنعت ہی ترقی کی ضامن ہے

گزشتہ چند برسوں سے پاکستان ایک خطرناک معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ 2021 اور 2022 میں پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا، مگر آئی ایم ایف کی قسطوں اور دوست ممالک کی وقتی مدد سے اس بحران سے وقتی طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ تاہم یہ بچاؤ نہ تو مستقل تھا اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی پائیدار معاشی حکمت عملی موجود تھی۔ درآمدات کا حجم اب بھی برآمدات سے کئی گنا زیادہ ہے اور قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے، جس سے ملک کی معاشی خودمختاری محدود ہوتی جا رہی ہے۔ ہر سال کھربوں روپے صرف قرض کی قسطیں اور سود ادا کرنے میں خرچ ہو جاتے ہیں اور یوں ترقیاتی منصوبوں اور عوامی فلاح کے لیے پیسہ کم پڑ جاتا ہے۔

ایسے حالات میں آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ کہ پاکستان بغیر کسی وقت کی حد کے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے، نہایت تشویش ناک ہے۔ یہ پالیسی نہ صرف ملکی تجارتی خسارے کو مزید بڑھا دے گی بلکہ مقامی آٹو انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ پاکستان میں پہلے ہی گاڑیوں کی پیداوار کم ہو چکی ہے، اور بے یقینی کے ماحول نے سرمایہ کاروں کو پیچھے ہٹا دیا ہے۔

اگرچہ مقامی کار ساز کمپنیوں نے ماضی میں پاکستانی صارفین کو ناقص کوالٹی، مہنگی قیمتوں اور سست ڈیلیوری کے ذریعے مایوس کیا ہے، لیکن اس کا حل مقامی صنعت کو تباہ کرنا نہیں بلکہ اسے بہتر بنانا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سخت قوانین اور ریگولیشنز کے ذریعے ان کمپنیوں کو معیار بہتر بنانے، قیمتوں میں شفافیت لانے اور صارفین کو بہتر سروس فراہم کرنے پر مجبور کرے۔ صنعت کا فروغ ہی ترقی کی ضمانت ہے، اور بہتری کا راستہ تباہی نہیں بلکہ اصلاح سے گزرتا ہے۔ اگر پرانی گاڑیوں کی درآمد کھلی چھوٹ کے ساتھ شروع ہو گئی تو مقامی انڈسٹری کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ یہ انڈسٹری صرف کارخانے ہی نہیں، بلکہ لاکھوں خاندانوں کا روزگار ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی معیشت یعنی امریکہ بھی اس وقت اپنی صنعت کو واپس لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ "میک اِن امریکہ” جیسے نعرے وہاں مقبول ہو رہے ہیں تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، درآمدات پر انحصار کم ہو، اور معیشت مستحکم ہو۔ لیکن پاکستان جیسا ملک، جو نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے بلکہ وسائل کے لحاظ سے محدود ہے، وہ آج بھی ایسی پالیسیوں کی طرف جا رہا ہے جو مقامی صنعت کو ختم کر کے درآمدات پر انحصار بڑھا رہی ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ ہمارے قومی مفادات سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کب تک دوسروں کی شرائط پر معیشت چلانا چاہتا ہے۔ اگر ہم واقعی قرضوں سے آزادی چاہتے ہیں، روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں، برآمدات بڑھانا چاہتے ہیں، اور معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مقامی صنعت کو فروغ دینا ہو گا۔ صنعت کاری کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ جب ہم اپنی ضروریات کی چیزیں خود بنانے کے قابل ہو جائیں گے تو نہ صرف درآمدات کم ہوں گی بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایسی پالیسیاں متعارف کروانی چاہییں جو مقامی سرمایہ کار کو تحفظ فراہم کریں۔ نئی صنعتیں لگانے والے کاروباری حضرات کو ٹیکس میں چھوٹ، سستی بجلی، آسان قرضے اور بنیادی سہولتیں دی جائیں۔ نوجوانوں کو ہنر سکھا کر صنعتی شعبے میں شامل کیا جائے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھیں اور ہماری نوجوان آبادی بوجھ کے بجائے اثاثہ بنے۔ ٹیکسٹائل، آٹو، الیکٹرانکس، زراعت، فارماسیوٹیکل اور دیگر کئی شعبے ایسے ہیں جن میں پاکستان خود کفیل ہو سکتا ہے، اگر سنجیدگی سے پالیسی ترتیب دی جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔

اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں اور درآمدات پر انحصار بڑھاتے رہے تو صرف گاڑیاں ہی نہیں، آہستہ آہستہ ہم ہر شعبے میں دوسروں پر انحصار کرنے لگیں گے۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کب تک صرف خریدار رہیں گے، کیا ہمیں پیدا کرنے والی قوم بننا ہے یا ہمیشہ درآمدی قوم کے طور پر رہنا ہے۔ پاکستان کا مستقبل مضبوط صنعت سے جڑا ہے، اور یہی راستہ ہمیں آئی ایم ایف کی غلامی سے نکال سکتا ہے۔