نوجوان نسل سوشل میڈیا کے جال میں
یقیناً، پاکستان میں سوشل میڈیا کا بے احتیاطی سے استعمال نہ صرف معاشرتی بگاڑ کا باعث بن رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بھی بن چکا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جہاں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے نتیجے میں ایک سترہ سالہ لڑکی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس المناک واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ ہمارا معاشرہ سوشل میڈیا کے خطرات سے نہ صرف نابلد ہے بلکہ نوجوانوں کو اس کی سنجیدگی کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔
ہمارے نوجوان، جو سوشل میڈیا کو صرف تفریح یا اظہار رائے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، اس کے منفی پہلوؤں سے مکمل طور پر غافل ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس ڈیجیٹل دنیا میں ہر چہرہ سچا نہیں ہوتا، ہر پروفائل محفوظ نہیں اور ہر دوستی نیک نیتی پر مبنی نہیں۔ جس تیزی سے لڑکیوں اور لڑکوں کی سوشل میڈیا پر "دوستیاں” ہو رہی ہیں، اسی تیزی سے وہ غیر محفوظ تعلقات میں الجھ رہے ہیں جن کا انجام اکثر افسوسناک نکلتا ہے۔ اس خطرناک رویے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جس سے وہ اس شخص کی اصل شناخت یا ماضی کا پتا چلا سکیں، جس سے وہ آن لائن بات کر رہے ہیں۔ اگر ان کے پاس یہ معلومات ہوتیں تو وہ ان افراد سے دور رہتے۔
سوشل میڈیا پر بدنیتی رکھنے والے افراد موجود ہیں جو جعلی پروفائلز بنا کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف جذبات سے کھیلنا، بلیک میل کرنا، یا جسمانی نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل ایسے افراد کو پہچاننے کی تربیت نہیں رکھتی۔ لڑکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے ساتھ دوستی کے نام پر تعلقات استوار کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی تصاویر یا ذاتی معلومات کا غلط استعمال کر کے انہیں خوفناک انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔
آج سوشل میڈیا پر فحش اور غیر اخلاقی مواد عام ہو چکا ہے۔ یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور فیس بک پر ایسی ویڈیوز اور پوسٹس وائرل ہو رہی ہیں جن کا ہماری معاشرتی اقدار سے کوئی تعلق نہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مواد کو نہ صرف لاکھوں لوگ دیکھتے ہیں بلکہ انہیں سراہا بھی جاتا ہے، جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں اصل اور جعلی، حلال اور حرام، اخلاق اور بے حیائی کا فرق ہی مٹ چکا ہو۔ نوجوان ایسی ویڈیوز سے متاثر ہو کر خود بھی ویسا ہی بننے کی کوشش کرتے ہیں، اور اسی دوڑ میں وہ اپنی عزت، اعتماد اور کبھی کبھار اپنی جان بھی کھو بیٹھتے ہیں۔
سوشل میڈیا کی افادیت اگرچہ موجود ہے، جیسے خبروں کی فوری رسائی، تعلیم کے مواد، یا چھوٹے کاروبار کے فروغ کے لیے، لیکن یہ مثبت پہلو اس کے منفی استعمال کے سامنے نہایت کمزور نظر آتے ہیں۔ عوام کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کو صرف تفریح یا دوسروں کی زندگی جھانکنے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ نہ اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ کسی کی عزت کا۔ الزام تراشی، کردار کشی، اور ذاتی زندگی پر حملے عام ہو چکے ہیں۔ ان باتوں کا شکار زیادہ تر نوجوان ہی بنتے ہیں کیونکہ وہ جذبات میں آ کر غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جعلی خبریں اتنی تیزی سے پھیلتی ہیں کہ ان کی تصدیق کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ کوئی شخص جھوٹ بول کر، تصویر یا ویڈیو کے ساتھ، ایسی خبر نشر کر دیتا ہے جو معاشرتی انتشار، مذہبی منافرت یا کسی کی جان کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ ان فیک نیوز کے ذریعے کسی کو بدنام کرنا، یا لوگوں کو مشتعل کرنا، آج کے دور میں نہایت آسان ہو چکا ہے۔
اگر ہم نے بطور معاشرہ اب بھی سوشل میڈیا کے استعمال پر نظرثانی نہ کی، اپنے بچوں کو اس کے خطرات سے آگاہ نہ کیا، اور اس پلیٹ فارم پر قوانین پر سختی سے عمل نہ کروایا، تو ایسے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا۔ میڈیا، اسکولز، والدین، اور ریاستی اداروں کو مل کر یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنی نسل کو بے لگام سوشل میڈیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں، خصوصاً نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے نقصانات اور خطرناک پہلوؤں سے آگاہ کریں۔ انہیں یہ سمجھانا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ اور منفی استعمال ذہنی دباؤ، وقت کے ضیاع، اور اخلاقی بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو سوشل میڈیا کے مثبت اور محدود استعمال کی ترغیب دیں تاکہ وہ اسے صرف تعلیم، معلومات اور مثبت سرگرمیوں کے لیے استعمال کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی سخت قوانین اور مؤثر اقدامات متعارف کروانے کی ضرورت ہے تاکہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکا جا سکے، کیونکہ یہ پورے معاشرے پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔