معاشیت کے بارے میں ہمارے مفروضے
کل ایک جگہ چند نوجوان تبصرہ کر رہے تھے کہ پاکستان کے پاس سمندر میں تیل کے بہت بڑے ذخائر ہیں مگر مغربی اور مشرق وسطی کے ممالک ہمیں وہ تیل نہیں نکالنے دیتے۔ پاکستان میں یہ مفروضہ نیا نہیں ہے اور کم ازکم پچھلے تیس سالوں سے یہ کہانیاں میں بھی سُن رہا ہوں جبکہ کے بے تحاشہ پیسہ خرچنے کے بعد بھی کچھ نہیں ملا اور تمام ارضیاتی ماہرین کی رائے ہے کے پاکستان کی سمندری حدود میں تیل کے ذخائر موجود ہی نہیں ہیں۔ اسں طرح کی بہت سی غلط فہمیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی ہیں جو جان بوجھ کر لوگوں کو الجھانے اور گمراہ کرنے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔ ایسے خیالات خالصتاً نا سمجھی کا نتیجہ ہیں اور ان کا مقصد اصل راہ سے ہٹانا ہے۔
ہماری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاتا رہا ہے۔ لوگوں کو کبھی بتایا جاتا ہے کہ چنیوٹ میں دنیا کے سب سے بڑے لوہے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں کبھی کہا جاتا ہے کے ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر اتنے بڑے ہیں کے اس سے ملک کی تقدیر بدل جائیگی جب کے حقیقت یہ ہے کے ابھی نکلا کچھ بھی نہیں اور ہمیں اربوں ڈالر کا جُرمانہ ہو چُکا ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں ہمیں یہ کہہ کر بھی بے وقوف بنایا جاتا رہا کے ہم ایک زرعی ملک ہیں اور ہمیں صرف زراعت پر توجہ دینی چاہیے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کا پیٹ نہیں بھر پارہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد خوراک کی کمی کا شکارہورہی ہے بلکہ ایسے علاقے بھی ہیں جن میں قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ سیاحت سے ملک کی تقدیربدلی جاسکتی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صرف دو لاکھ کے لگ بھگ سیاح آتے ہیں۔ اسکے برعکس ترکی میں سیاحوں کی سالانہ تعداد چار کروڑ سے ذیادہ ہے اسکے باوجود سیاحت ک حصہ ترکی کی جی ڈی پی میں صرف سات فیصد ہے۔ ترکی کی خوشحالی کی اصل وجہ اسکے صنعتی ترقی میں پنہاں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم وسائل کی کمی کا شکار ملک ہیں اور ہمارے وسائل ہماری آبادی کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کے ہم ان احمقانہ مفروضہ سے نکلیں اور وہی کریں جو ترقی یافتہ قوموں نے کیا ہے اور وہ ہے صنعتی ترقی۔ ہمیں تین کام جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنی آبادی جو خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اسکو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو ہنرمند بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام انتہائی ناقص ہے جو معیاری اور عہد جدید کی ضرورتوں کے مطابق نہیں ہے۔
دوسرا، ہمیں اپنے توانائی کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا اور اسکے لیے ہمیں اپنے مقامی وسائل کو استعمال کرنا چاہیے۔ صرف شمسی توانائی ہی ہمارے مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔ اسوقت ترکی آٹھ ہزار میگاواٹ، بھارت پچیس ہزار میگاواٹ اور چین ایک لاکھ میگاواٹ بجلی شمسی توانائی کے ذریعہ پیدا کر رہے ہیں۔ اسوقت ہماری کل ضرورت پچیس ہزار میگاواٹ ہے اور ہمیں صرف پانچ ہزار میگاواٹ ہے کی قلت کا سامنا ہے جو آسانی سے پوری کی جاسکتی ہے۔۔
آخر میں ہمیں اپنے آپ کو مزید بیوقوف نہیں بنانا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف اُن ممالک نے ہی ترقی کی ہے جنہوں نے اپنے صنعتی شعبے کو ترجیح دی ہے۔ ہمیں بھی مقامی صنعت کو بڑے پیمانے پر فروغ دینا ہوگا۔ صنعتی شعبہ ہی ہمارے معاشی مسائل کا واحد حل ہے جس سے ملک میں خوشحالی آئیگی۔ اس سے لوگوں کو روزگار ملے گا جو اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی رہائش کا انتظام کرسکتے ہیں، اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم کا خرچہ اُٹھا سکتے ہیں۔ اس سے ملک کے وسائل میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔