Featured

پاکستان کی معشیت اور پریشان عوام

مستنصر حسین تارڈ نے اپنے مشرق وسطیٰ کے سفرنامے میں ایک واقعہ بیان کیا جس کے مطابق اُنھیں ایک خاندان نے اپنے گھر مدعو کیا وہاں اور احباب بھی موجود تھے۔ مستنصر حسین تارڈ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نےموقع کو غنیمت جان کر اور پاکستانی عادت سے مجبور ہو کر مذہب کے اوپر لمبا لیکچر شروع کر دیا ۔ اِس دوران اُن میں سے لوگ اُٹھ کر تھوڑی دیر باہر جاتے اور پھر واپس آ جاتے ۔ مستنصر حسین تارڈ کا کہنا ہے کے بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جہاں میں اِسلام کا لیکچر دینے میں مشغول تھا وہاں وہ لوگ ساتھ ساتھ نمازیں بھی ادا کر رہے تھے اور اس دوران میں اپنی دو نمازیں چھوڑ چکا تھا۔

یہ بات حال ہی میں گُزری چار پانچ خبریں دیکھنے کے بعد ذہن میں آئی جو افغانستان اور پاکستان کے بارے میں تھیں۔ پہلی خبر تھی کہ افغانستان میں چین نے سولر پینل بنانے والی فیکٹری لگا دی اور دوسری کہ چین سے پہلی مال بردار ٹرین سامان لے کر افغانستان پہنچ گئی۔ اسکے ساتھ ہی انڈیا کا ایک اعلی سطحی وفد طالبان سے ملنے کابل پہنچ گیا۔ پاکستان سے خبر ہے کہ پاکستان نے دو بلین ڈالر سے زائد کے سولر پینل درآمد کیئے، چین کے دو باشندوں کو کراچی میں فائرنگ سے زخمی کر دیا گیا، کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر دہماکے میں تیس کے قریب لوگ مارے گئے اورپی آئی اے کو کوئی خریدار نہیں ملا۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معاشی وصنعتی محاذ سے لے کر تعلیمی اور باقی میدانوں میں بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ پاکستانی معیشت اور پی آئی اے دونوں کے حالات دگر گوں ہیں جبکہ ہم دنیا کو 1960ء کی دہائی کے قصے سنا رہے ہیں کہ اِس دور میں ہماری معیشت ایشیاء میں چوتھے نمبر پر تھی، اور پی آئی اے کا شمار دُنیا کی بہترین ائیر لائن میں ہوتا تھا ۔ مگر یہ ہماری کارکردگی ہے کہ پی آئی اے اس تباہ حالی کا شکار ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کہانیاں سنائی جارہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر پی آئی اے میں کچھ ہوتا تو سرمایہ دار کبھی بھی اِس موقع کو نہ جانے دیتے ۔ ایک ایسی ائیر لائن جو سالانہ 75 ارب روپے کا نقصان کر رہی ہو اور جس کے اوپر چار سو ارب روپے کا قرضہ ہو، اور جسکے بارے میں حکومت وقت خود کہہ چُکی ہو کے اسکے کئی پائلٹ جعلی ڈگری ہولڈ ہیں، اور جس ائیرلائن پر یورپ میں پابندی ہو، اور اسمیں نااہل افراد کی بھرمار ہو ایسی ائیرلائن کو کون خریدے گے؟ یہ ہی حال پاکستان کی معیشت کا ہے جسکو بجلی کا مسئلہ تباہ کررہا ہے اور ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔

جو حالات لگ رہے ہیں اُن سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں افغانستان بھی معاشی طور پر بہتر ہو جائے گا۔ طالبان کی حکومت چین ، خلیجی ممالک اور حتیٰ کے بھارت سے بھی معاشی تعاون کرنے کی خواہ ہے۔ اگر ان ممالک کے ذریعہ وہ اپنے معدنی وسائل کو فروغ دے دیتا ہے تو افغانستان کی معیشت بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب ہم سے نہ تو بجلی کا مسئلہ قابو آ رہا ہے اور نہ ہی دہشت گردی اور لاقانونیت۔ اگر حالات یوں ہی چلتے رہے تو افغانستان بھی ہم سے آگے نکل جائے گا اور ہم دنیا کو 1960ء کی دہائی کے قصے ہی سناتے رہیں گے۔ اِس لئیے ارباب اختیار کو چاہیئے کے ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کے بارے میں دور رس ، فوری اور حقیقت پر مبنی فیصلے کریں۔ ملک جس ڈگر پر کھڑا ہے وہاں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔