Featured

پاکستانی کسانوں کا معاشی استحصال: مسائل، وجوہات اور ممکنہ حل

پاکستان میں زراعت کا شعبہ کئی دہائیوں سے بحران کا شکار ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ کسانوں کو درپیش مالی مشکلات ہیں۔ کسان مہنگے بیج، کھاد، زرعی ادویات، پانی، بجلی اور ٹیوب ویل کے اخراجات اٹھاتے ہیں، لیکن جب فصل تیار ہوتی ہے تو اس کی قیمت لاگت سے کم ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ منڈی میں کسانوں کا استحصال ہے، جہاں بیوپاری کم قیمت پر فصل خرید کر اسے ذخیرہ کر لیتے ہیں اور بعد میں مہنگے داموں فروخت کر کے منافع کماتے ہیں۔ یہ طریقہ کار اکثر مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس سے عام صارف بھی مہنگائی کا شکار ہوتا ہے۔

ماضی میں حکومت کسانوں کو معاونت فراہم کرنے کے لیے سپورٹ پرائس کا نظام متعارف کروا چکی تھی، جس کے تحت حکومت مقررہ قیمت پر کسانوں سے فصل خریدنے کی ضمانت دیتی تھی۔ اس سے کسانوں کو کم از کم ایک قیمت ملنے کا یقین ہوتا تھا، لیکن اس نظام کے خاتمے کے بعد وہ مکمل طور پر منڈی کے رحم و کرم پر رہ گئے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کسانوں کو اپنی محنت کے مناسب دام نہیں ملتے جبکہ بیوپاری اور بڑے تاجر اربوں روپے کماتے ہیں۔ اس مسئلے کا مستقل حل نکالنے کے لیے پاکستان کو ان ممالک کے ماڈلز سے سیکھنا ہوگا جہاں زراعت کو مستحکم رکھنے کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔

بھارت میں کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایم ایس پی (Minimum Support Price) کا نظام نافذ ہے، جہاں حکومت کسانوں کو ایک مخصوص قیمت کی یقین دہانی کراتی ہے، اور اگر منڈی میں قیمت اس سے کم ہو تو حکومت براہ راست کسانوں سے خریداری کرتی ہے۔ اسی طرح چین میں کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی، سبسڈی اور قرضوں کی سہولت دی جاتی ہے تاکہ وہ پیداوار بڑھا سکیں اور مارکیٹ میں مسابقتی حیثیت برقرار رکھ سکیں۔ یورپی ممالک میں کسانوں کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے، جہاں انہیں براہ راست سبسڈی، جدید سہولیات، اور مارکیٹ کے استحصال سے بچانے کے لیے قوانین دیے گئے ہیں۔

پاکستان میں بھی کسانوں کو بچانے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے، حکومت کو سپورٹ پرائس کا نظام بحال کرنا ہوگا اور گندم، کپاس، چاول، مکئی اور دیگر اہم فصلوں کی ایک کم از کم قیمت مقرر کرنی ہوگی۔ دوسرا، کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ کم لاگت میں زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔ تیسرا، زرعی اجناس کے لیے کوآپریٹو مارکیٹیں قائم کی جائیں جہاں کسان براہ راست صارفین تک پہنچ سکیں اور بیوپاریوں کے استحصال سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کسانوں کو خریداروں سے جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی فصلیں منڈی کے بجائے آن لائن فروخت کر سکیں۔

اگر کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی، حکومتی سرپرستی اور بہتر منڈی تک رسائی دی جائے تو پاکستان کی زراعت میں انقلاب آسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے حکومت کو سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ کسان خوشحال ہو سکیں اور ملک میں غذائی تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔