EconomyFeatured

پاکستان لڑاکا طیاروں کی دوڑ میں شامل

پاکستان نے آزربائیجان  کو  JF-17  کی فروخت سے اسلحہ کی دنیا میں خاصی ہلچل مچا دی۔ اگرچہ اِس سے پہلے پاکستان یہ طیارہ نائجیریا اور برما کو بیچ چکا ہے۔ مگر آذربائیجان  کو اِس طیارے کی فروخت نے بین الاقوامی خبروں میں نمایاں جگہ لی۔ پاکستان کا یہ معاہدہ 1.6 ارب ڈالر کا ہے اور طیاروں کی تعداد آٹھ   سے بارہ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ پاکستان 120 کے قریب یہ طیارے استعمال کر رہا ہے۔

JF-17 کا بنانا پاکستان جیسے ملک کے  لیئے  بہت بڑی کامیابی ہے۔ افغان جنگ  کے بعد پاکستان کو جدید ہتھیار پر پابندی لگ گئی تھی اور F-16 کے پُرزے خریدنے میں بھی پاکستان کو مشکلات  کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا ۔ پاکستان کے پاس وسائل   کی کمی تھی۔ ایسے میں پاکستان  ائیر فورس  F-7  اور مِگ 21 طیاروں پر ددارومدار تھا جو کسی صورت بھی جدید جنگی تقاضوں کے مطابق نہیں تھے ایسے میں پاکتستانی ائیر فورس نے اپنا طیارہ بنانے کی کوشش شروع کر دی جو کہ اُس وقت دیوانے کے خواب مترادف تھا ۔ مغرب نے جدید ٹیکنالوجی پاکستان کو دینے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ روس بھارت کی وجہ سے پاکستان کو ٹیکنالوجی دینے سے گریزاں تھا۔ JF-17  میں MIG-29 کا انجن استعمال ہو رہا ہے ۔ مگر آہستہ آہستہ پاکستان اور چین کی چنگڈو کارپوریشن ان مشکلات کوحل کرتے رہے اور JF-17 کی شکل میں 2003 میں پہلا جہاز بنا لیا گیا اور 2007  میں یہ پاکستان کی ائیر فورس میں شامل کر لیا گیا ۔

اِس وقت JF-17  کا بلاک تھری طیارہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ 4.5 جنریشن کا طیارہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ F-16 جنریشن فور کا طیارہ ہے۔ اسوقت دنیا کے جدید ترین جہاز جنریشن فائیو کے ہیں جن کی قیمت JF-17 سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پاکستان اِس طیارے میں روس، چین ، ترکی اور یورپ کے جدید آلات استعمال کرتا ہے۔ جب کہ اِس میں جدید ترین مزائل اور ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں جو چین اور ترکی کے ہیں۔ چونکہ اِس جہاز کے تمام آلات دوست ممالک سے لیئے گئے ہیں اس لئے پاکستان کو کسی پابندی کا کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان JF-17 کے بلاک فور پر کام کر رہا ہے جو اِس کو ایک قدم اور آگے لے جائے گا۔

بتایا جا رہا ہے کہ ملائیشیا اور ایران نے بھی JF-17 خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس وقت دنیا  کے کئی ملک اس طیارے میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ اِس کی بڑی وجہ اسکی کم قیمت اور اس طیارے کی صلاحیت ہے۔ دوسرہ اِس طیارے میں چین ، روس، ترکی اور یورپ کے کچھ ممالک کی بہترین ٹیکنالوجی شامل ہے۔ اسلیے ان پر مغربی ممالک کی جانب سے پابندیوں کا خطرہ بھی نہیں ہوگا۔ اگر ان ممالک سے اسلحہ خریدہ جائے تو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کس وقت سپئیر پارٹس روک دئیے جائیں۔ اِس کے علاوہ ان جہازوں میں ٹریکنگ ڈیوائس لگی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے حالت جنگ میں ان کی کوئی افادیت نہیں رہتی ۔ بہرحال پاکستان کے لئیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔