پاکستان بھارت تجارت کا مستقبل
کیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تجارت شروع ہو سکتی ہے؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے تو اِس کا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت ہے اور آئندہ الیکشن میں بھی بے جے پی کی جیت یقینی سمجھی جارہی ہے۔ بی جے پی کی سیاست کا ایک اہم نقطہ مسلم دشمنی اور پاکستان دُشمنی ہے۔ بی جے پی ہمیشہ اِسلام اور پاکستان کو ہندواتہ کے لئے بہت بڑا خطرہ اور مہا بھارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ بی جے پی کا بھارت کو ایک ہندو سٹیٹ بنانے کا خواب بھی کوئی ڈھکا چُھپا نہیں ہے بلکہ یہ بات واضح ہے کہ اِس الیکشن کے بعد قانون سازی کر کے اِس ایجنڈے کی تکمیل کی جائے گی۔ اِس وجہ سے بی جے پی "اب کی بار 400 پار” کے نعرے لگا رہی ہے تاکہ قانون سازی کے لیئے دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے۔ معاشی محا ذ پر بھی بھارت کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں۔ بھارت اِس وقت دُنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے جو کہ جلد ہی جرمنی اور جاپان کو پیچھے چھوڑ کر تیسری بڑی معیشت بن جائے گی۔ اِس صورت میں پاکیستان سے پانچ یا دس ارب ڈالر کی تجارت بھارت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ بی جے پی اگر تیسری دفعہ الیکشن جیتنے جارہی ہے تو اِس کی بڑی وجہ بھارت کی معیشت میں غیر معمولی بہتری ہے۔ اسکے علاوہ تاریخ میں پہلی بار ایک عظیم ہندو سٹیٹ کے لیئے بی جے پی کی جدو جہد ہے۔ بی جے پی کے لیے اپنی پالیسی سے یوٹرن لینا اب خاصہ مُشکل ہوگا۔
مگر موجودہ حالات میں سب کچھ بی جے پی کے کنٹرول میں بھی نہیں۔ بہت سے بیرونی اور اندرونی حالات ہیں جو بدل گئے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں بی جے پی کو مغرب کی مکمل تائید حاصل تھی۔ مگر پچھلے چند ماہ میں بی جے پی کی حکومت پر تنقید بھی ہوئی اور الزامات بھی لگے ۔ بی جے پی کی حکومت پر دوسرے ممالک میں جا کر حکومت مخالف عناصر کو قتل کرنے کا الزام لگا۔ یہ الزام کینیڈا کی حکومت کی طرف سے لگا اور امریکہ اور برطانیہ نے کینیڈا کا بھرپور ساتھ دیا۔ گارجین اخبار نے ابھی حال ہی میں بی جے پی پر پاکستان میں بیس سے زائد افراد کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ قتل کرنے کا الزام لگایا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ مغرب بھارت کو چین کے مقابلے لانے کے لیئے کوشاں ہے اورمغرب کی خواہش ہے کہ بھارت چین کے خلاف جارحانہ پالیسی رکھے۔ بھارت یوکرائن اور اسرائیل کے معاملے میں بھی اپنے دو قریبی حلیفوں روس اور ایران سے دوری اختیار کر رہا ہے کیونکہ وہ مغرب اور اسرائیل کی دُشمنی مول نہیں لینا چاہتا۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کے مغرب بھارت سے کچھ ذیادہ کا طلبگار ہے جو شاید بھارت کے لیے ممکن نہ ہو۔
انڈیا کے ہمسائے میں موجود چھوٹے ممالک جو کبھی مکمل طور پر بھارت کے زیر تسلط تھے اب وہاں بھی چین کا اثر رسوخ بڑھ رہا ہے اور بھارت مخالف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔ برما، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ اور بھوٹان سب کی سوچ میں اب تبدیلی آرہی ہے۔ کوئی بھی ملک چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ایک بڑی معیشت نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی معیشت کو سیاست سے الگ نہ رکھے۔ چین کی ایک بڑی قوت بننے کی وجہ یہ ہی ہے کہ چین نے کبھی معاشی مفاد کو سیاست سے نتھی نہیں کیا چین اور امریکہ کے تعلقات میں اسوقت بہت تناؤ ہے مگر ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم سات سو ارب ڈالر ہے۔ اگرچہ چین اور بھارت کے درمیان سرحد پر جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر چین نے کبھی بھارت سے معاشی تعلقات ختم نہیں کیئے۔ چین جن ممالک سے معاشی معاہدے کرتا ہے تو اِس میں سیاسی شرائط عائد نہیں کرتا اور نہ ہی چین کسی ملک کے اندرونی حالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں مکمل آزاد ہوتے ہیں۔ ہندوستان نے اگر اپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھنا ہے تو اِس کو بھی اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا ہو گی۔
اگرچہ ان الیکشن میں بی جے پی کی جیت متوقع ہے اور بی جے پی 400 سیٹیں لے جانے کی اُمید لگائے بیٹھی ہے مگر بعض تجزیہ کار کے مطابق ایسا ممکن نہیں بلکہ شاید اسکے برعکس بی جے پی کی سیٹیں پچھلے الیکشن کی نسبت کچھ کم ہو جائیں۔ اِس کی بنیادی وجہ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس اور اعتدال پسند حلقوں کی جانب سے بی جے پی کی پالیسی پر ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ اِس کے علاوہ ہندوستان میں شمال اور جنوب کی ریاستوں کے درمیان تناؤ ہے۔ جنوب کی ریاستیں ملکی معیشت میں وسائل کا ایک بڑا حصہ ڈالتیں ہیں۔ جب کہ وسائل کی تقسیم میں فائدہ شمال کی ریاستوں کو ہوتا ہے ۔
ماضی کی نسبت اگر بی جے پی کی حکومت مضبوط ہو کر آتی ہے تو پھر تو بی جے پی اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائے گی۔ لیکن اگر بی جے پی پچھلے الیکشن سے کم سیٹیں لیتی ہے تو وہ دباؤ میں آئے گی اور پھر بی جے پی کو الیکشن کے بعد اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی لانے پڑے گی۔ اِس صورت میں بی جے پی پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات بحال کر نے پر غور کر سکتی ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کی تینوں بڑی جماعتیں پی ٹی آئی، پی ایم ایل این، اور پی پی پی میں ہندوستان سے معاشی روابط شروع کرنے کے حق میں سوچ پائی جاتی ہے۔ جب کہ مذہبی جماعتیں اور طاقت ور حلقے بھارت سے اُس وقت تک روابط کے خواہ نہیں جب تک بھارت کشمیر کا سٹیٹس بحال نہیں کرتا۔ لیکن پاکستان کے معاشی حالات دیکھتے ہوئے پاکستان کی پالیسی میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ بہرحال ہندوستان کے الیکشن کے بعد ہی صحیح صورتحال واضح ہو گی اور اسکے بعد ہی پاکستان کی حکومت بھی واضح پالیسی دینے کی پوزشن میں ہوگی۔