ایک بہترین ریلوے معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے
پچھلی چند دہائیوں میں چین اور بھارت نے ریلوے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسکو اپنی معاشی پالیسی میں اہمیت دی ہے۔ بدقسمت سے پاکستان میں ریلوے کے نظام کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور اس شعبہ کو کوئی ترقی نہیں دی گئی۔ پاکستان ریلوے نظام، جو کبھی ملک کی صنعتی ترقی کی علامت تھا، گزشتہ چند دہائیوں سے کئی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ پرانے فرسودہ ڈھانچے سے لے کر انتظامی بے قاعدگیوں تک، ریلوے نظام میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ اگر منصوبہ بندی کے ساتھ سرمایہ کاری کی جائے تو اس میں بہت بہتری آسکتی ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ جو ریلوے کو درپیش ہے وہ اسکا پُرانا ڈھانچہ ہے۔ بہت سی پٹریاں، پل اور اسٹیشنز نوآبادیاتی دور میں بنائے گئے تھے اور ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ سے حادثات اور ٹرینوں کے پٹری سے اترنے کے واقعات عام ہیں، جس سے لوگوں کا ریلوے پر اعتماد کم ہوا ہے۔ ٹرینوں کا دیر سے آنا اور دیر سے پہنچانا ایک عام مسئلہ ہے۔ ٹرین سٹیشن بھی اب گنجان آبادیوں میں ہیں اور ان تک رسائی آسان نہیں۔ ٹرک مافیا نے بھی ریلوے کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں موجود افراد بہت سیاسی اثر رسوخ رکھتے ہیں اور یہ لوگ ایک بہترین ریلوے کے نظام کو اپنے روزگار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اسلیے چند سیاسی جماعتوں میں ریلوے کی ترقی کی خواہش نہیں بلکہ وہ ریلوے کو ختم کردینے کے حق میں ہیں۔
پاکستان ریلوے کئی سالوں سے خسارے میں چل رہی ہے۔ اسکے اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی سبسڈی پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ بدانتظامی اور بدعنوانی نے مالی مشکلات کو اور بھی بڑھا دیا ہے، جس میں اکثر فنڈز کی غلط تقسیم یا چوری ہوتی ہے۔ انجن اور بوگیاں بہت پُرانی ہیں اور موجودہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ بہت سی ٹرینیں 30 سال سے زیادہ پرانی ہیں، جس کی وجہ سے بار بار خراب ہوتی ہیں جو تاخیر کا باعث بنتی ہیں۔ یہ پرانی ٹرینیں ایندھن بھی بہت ذیادہ استعمال کرتی ہیں اور ان کی مستقل مرمت کی وجہ سے ان پر آپریٹنگ اخراجات بھی بہت ذیادہ ہیں۔
مسافر عموماً خراب سروس کی شکایت کرتے ہیں، جن میں تاخیر، گندی کوچز اور اسٹیشنز پر ناکافی سہولیات شامل ہیں۔ وقت کی پابندی اور آرام دہ نہ ہونے کی وجہ سے ممکنہ مسافر دوسرے ذرائع نقل و حمل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ سڑک کے نیٹ ورکس کی بہتری اور سستے بس سروسز کی دستیابی کے ساتھ، بہت سے لوگ ٹرینوں کے بجائے بسوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ عوام کی سوچ میں اس تبدیلی نے پاکستان ریلوے کی آمدنی کو مزید کم کر دیا ہے۔
ریلوے کے ڈھانچے کو بہتر کرنے اور جدید ریل گاڑیوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس فنڈنگ کو حاصل کرنا، چاہے وہ حکومتی بجٹ کے ذریعے ہو، نجی شعبے کی سرمایہ کاری یا بین الاقوامی امداد کے ذریعے سے ہو، ایک بڑا چیلنج ہے۔ موثر آپریشن کے لئے انتظامی اصلاحات بھی ضروری ہیں جن میں میں بدعنوانی کا خاتمہ، سٹاف کی بہتر بھرتی اور ترقی کے لئے میرٹ پر مبنی نظام کا نفاذ شامل ہے۔ ریلوے آپریشنز میں جدید ٹیکنالوجی کا شامل کرنا، جیسے ڈیجیٹل ٹکٹنگ، ریئل ٹائم ٹریکنگ اور خودکار سگنلنگ سسٹم، اہم ہے۔ تاہم، ان میں بھی ابتدائی لاگت بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ اگرچہ حکومت کی سبسڈی ضروری ہے لیکن مالی استحکام کے لئے ایک توازن کی ضرورت ہے۔ اس میں کرایہ کا جائزہ لینا اور نئے آمدنی کے ذرائع تلاش کرنا ضروری ہے جیسے فریٹ سروسز اور پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپس۔ ریلوے نظام میں عوام کا اعتماد بحال کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے لئے سروس کے معیار، حفاظت اور اعتماد میں مسلسل بہتری کی ضرورت ہے۔
پٹریوں، پلوں اور اسٹیشنز کی اپ گریڈنگ بھی بہت ضروری ہے۔ اس میں اہم راستوں پر ٹرینوں کو بجلی پر چلانا، وقت کو بچانے کے لیے ٹریک کا ڈبل کرنا بہت ضروری ہے۔ نئے لوکوموٹیوز اور بوگیوں میں سرمایہ کاری کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ایسی جدید ٹرینیں جو توانائی کی بچت کرتی ہوں اور آرام دہ ہوں، سروس کے معیار کو بہتر بنا دیتی جو زیادہ مسافروں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔ آپریٹنگ کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے انتظامی اصلاحات کو نافذ کیے جانا چاہیے۔ اس میں کامیاب ریلوے نظاموں کی بہترین پریکٹسز کو اپنانا، انتظامی عمل کو سلسلہ وار بنانا اور کارکردگی کے میٹرکس پر توجہ دینا شامل ہے۔ سروس ڈلیوری کو بہتر بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہیے ڈیجیٹل ٹکٹنگ سسٹم، ریئل ٹائم ٹریکنگ ایپس اور خودکار سگنلنگ ریلوے نظام کو زیادہ آسان اور موثر بنا دے گا۔
حکومت پاکستان چین کے ساتھ مل کر ریلوے کو مکمل طور پرجدید بنانے کے لیے ایم ایل ون پروجیکٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس منصوبہ کا ابتدائی تخبینہ نو ارب ڈالر کے لگھ بھگ تھا۔ اگرچہ یہ ایک شاندار اور جامع منصوبہ تھا مگرریلوے کی آمدنی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں۔ ریلوے پچھلی کئی دہائیوں سے حکومتی امداد پر چل رہی ہے۔ کسی بھی صورت ریلوے یہ قرضہ اپنی آمدنی سے واپس کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی لہذا یہ قرضہ بھی حکومتِ پاکستان کو ہی اُتارنا پڑے گا جو کے ایک ایسی حکومت کے لیے جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو انتہائی غلط اقدام ہوگا۔ دونوں ممالک نے باہمی رضامندی سےاس منصوبہ میں کچھ تبدیلیاں کرکے اس کی لاگت چھ ارب ڈالر کی گئی مگر چونکہ یہ رقم بھی موجودہ حالات میں بہت ذیادہ تھی اسلیے اس منصوبہ میں مزید تبدیلیاں کر کے اسکو تین ارب ڈالرکر دیا گیا ہے۔ اب یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کے چین اب اس منصوبہ میں سرمایہ کاری میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ بہرحال ریلوے کو اس ابترحالات سے نکالنے کے لیے حکومت کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اور ایک مناسب قرض لیکر بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپس (PPPs) کے ذریعے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ یہ پارٹنرشپس اسٹیشن کی بحالی اور فریٹ سروسز جیسے علاقوں میں مطلوبہ سرمایہ اور مہارت لا سکتی ہیں۔ مال برداری بھی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسمیں اضافہ کی بہت گنجائش ہے۔ ریل نقل و حمل کے لئے سستا طریقہ ہے، اور ایک مضبوط فریٹ سروس پاکستان ریلوے کی مالی قابلیت کو کافی حد تک بہتر بنا سکتی ہے۔ مسافروں کے تجربے کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ کوچز کی باقاعدگی سے دیکھ بھال، صفائی، وقت کی پابندی اور اسٹاف کی کسٹمر سروس کی تربیت اس ضمن میں بہت اہم ہیں اور یہ ہی چیزیں مسافروں کی تعداد میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں۔
پاکستان ریلوے کی بحالی کے لئے ایک جامع اور کثیر الجہتی اپروچ کی ضرورت ہے۔ متعدد مسائل اور چیلنجز کا حل کوئی معمولی کام نہیں ہے، لیکن صحیح حکمت عملیوں اور عزم کے ساتھ، پاکستان ریلوے ایک بار پھر ملک کے نقل و حمل کا ایک اہم حصہ بن سکتی ہے۔ جدیدیت، موثر انتظام اور کسٹمر کی تسکین پر توجہ دینا پاکستان ریلوے کی صلاحیت کو پوری طرح استعمال کرنے اور ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے میں سنگ میل ہو سکتی ہے۔