BusinessLatest

کیا روپے کی قدر بحال ہو سکتی ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی نے عام آدمی کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ گولڈمین ساکس کی حالیہ سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی روپے کی حقیقی قدر ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 220 روپے ہونی چاہیے، جبکہ مقامی کرنسی ڈیلرز ایسوسی ایشن کا بھی یہی مؤقف ہے کہ روپیہ اس وقت غیر فطری طور پر کمزور ہے۔ اس کے برعکس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ روپے کی قدر کو مزید کم کیا جائے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ روپے کی قدر حقیقت سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب ڈالر 100 روپے کے برابر تھا، مگر 2018 سے 2022 کے دوران معیشت کی ناقص منصوبہ بندی، کرپشن، اور بدانتظامی نے صورتحال کو یکسر بدل دیا اور آج ڈالر 280 روپے تک جا پہنچا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دنیا بھر میں ڈالر کی قدر میں کمی آ رہی ہے، لیکن پاکستان میں اس کے برعکس صورتحال ہے، جہاں IMF کے دباؤ میں آ کر روپے کو جان بوجھ کر کمزور کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو یہ مشورہ تو ضرور دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اخراجات کو اپنی آمدنی کے مطابق رکھیں، مگر جب یہی ممالک اپنی درآمدات پر پابندیاں لگاتے ہیں تاکہ زرِمبادلہ بچایا جا سکے، تو آئی ایم ایف ان پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ رویہ ان ممالک کے لئے تباہ کن ثابت ہوتا ہے جن کے پاس پہلے ہی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہوتے ہیں۔

روپے کی قدر میں 100 سے 280 تک کمی کا مطلب ہے کہ عام آدمی کی قوتِ خرید تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ مہنگائی کی شرح نے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، بجلی، گیس، پٹرول، آٹا، چینی، دالیں اور دیگر روزمرہ اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ تنخواہیں وہیں کی وہیں ہیں لیکن خرچے دگنے بلکہ تین گُنا ہو چکے ہیں۔ یہ صورتحال صرف غریب طبقے کو نہیں بلکہ متوسط طبقے کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے، جو اب بمشکل ہی اپنے اخراجات پورے کر پا رہے ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں بھی جمود کا شکار ہیں کیونکہ جب لوگوں کے پاس خریداری کی طاقت ہی نہیں ہو گی تو مارکیٹ کیسے چلے گی؟ فیکٹریوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور معاشی پہیہ رکا ہوا ہے۔

اگر ڈالر کی قیمت 200 یا 220 کے قریب آ جائے تو اس سے مہنگائی میں نمایاں کمی آئے گی، کاروباری سرگرمیاں بحال ہوں گی، درآمدی اشیاء سستی ہوں گی، اور عام آدمی کو کچھ ریلیف ملے گا۔ لیکن بدقسمتی سے حکومت IMF کے دباؤ میں اس حد تک جھک چکی ہے کہ کوئی بھی معاشی خودمختاری باقی نہیں رہی۔ حکومت کی پالیسیوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک کی معیشت اب IMF کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ ضروری ہے کہ موجودہ حکومت معاشی محاذ پر بھی ایک مؤثر حکمت عملی اختیار کرے، IMF سے بہتر شرائط پر مذاکرات کرے، اور اپنی قومی ترجیحات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔ اگر حکومت نے اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا تو عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہو جائے گی، اور ملک کو سیاسی و معاشی عدم استحکام سے نکالنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان جیسے ملک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو مصنوعی طریقے سے کمزور کرنے کے بجائے، اسے حقیقی معیارات کے مطابق مستحکم کرے۔ ہمیں اپنی درآمدات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری، اور مقامی صنعت کو فروغ دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی معاشی خودمختاری کے لیے کھڑا ہو، اور ایسے اقدامات کرے جو ملک و قوم کے طویل المدتی مفاد میں ہوں۔ عام آدمی کا حالیہ معاشی دَور میں زندہ رہنا ایک جدوجہد بن چکا ہے، اور اس سے نکلنے کے لیے سنجیدہ اصلاحات اور عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔