پانی کے مسائل: پاکستان کے اندرونی اختلافات اور بیرونی سازشیں
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کا بحران سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ محض ایک ماحولیاتی یا معاشی چیلنج نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کا معاملہ بن چکا ہے۔ پانی کی حساسیت کی سب سے بڑی وجہ ملک کا زرعی معیشت پر انحصار ہے، جو کہ جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد اور روزگار کا 40 فیصد ہے۔ دریاؤں اور زیرزمین پانی کے بغیر نہ تو کاشتکاری ممکن ہے اور نہ ہی صنعتی ترقی۔ لیکن اس کے باوجود، پاکستان میں پانی کے وسائل پر صوبائی تنازعات، بین الصوبائی عدم اعتماد، اور غیر موثر پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔
پاکستان میں پانی کے تنازعات کی جڑیں تقسیم ہند سے جا ملتی ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں کا نظام پاکستان کی زرعی اور صنعتی ضروریات کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن اس کے پانی کی تقسیم پر صوبوں کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں۔ خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے درمیان یہ تنازعہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ سندھ کا موقف ہے کہ پنجاب دریائے سندھ کا پانی بے دریغ استعمال کر کے اسے محروم کر رہا ہے، جبکہ پنجاب کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حصے کا پانی استعمال کر رہا ہے۔ اس تنازعے کی ایک بڑی وجہ 1991 کا آبی معاہدہ ہے، جس پر عملدرآمد میں مسلسل خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں۔ یہ معاہدہ پانی کی تقسیم کو واضح کرتا ہے، لیکن اس پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ نہ تو اعداد و شمار پر مکمل اعتماد ہے اور نہ ہی ایک آزاد اور غیر جانبدار مانیٹرنگ نظام موجود ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ کالاباغ ڈیم کا معطل ہونا ہے۔ یہ منصوبہ پاکستان کی پانی کی ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انتہائی اہم تھا، لیکن اسے سیاسی تنازعے کا شکار بنا دیا گیا۔ سندھ اور خیبر پختونخوا کے لوگوں کو یہ خدشہ تھا کہ یہ ڈیم ان کے حصے کا پانی روک لے گا، جس سے ان کی زراعت اور ماہی گیری متاثر ہوگی۔ پنجاب اس منصوبے کے حق میں تھا، کیونکہ اس سے بجلی کے بحران کو کم کرنے میں مدد ملتی۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے اسے صوبائی تعصب کا نشانہ بنا کر ایک قومی مسئلے کو غیر ضروری طور پر متنازعہ بنا دیا۔ نتیجتاً، پاکستان ہر سال کروڑوں ایکڑ فٹ پانی کو سمندر میں بہتا دیکھ رہا ہے، جس کا تخمینہ تقریباً 30 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہے۔ اگر اس پانی کو ذخیرہ کر لیا جائے، تو یہ نہ صرف پاکستان کی بجلی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے بلکہ خشک سالی کے دوران کاشتکاروں کو بھی ریلیف دے سکتا ہے۔
بھارت نے پاکستان کے پانی کے ضیاع کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھا کر اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے پانی کے وسائل کو سنبھالنے میں ناکام ہے، جس کی وجہ سے قیمتی پانی ضائع ہو رہا ہے۔ دریائے سندھ کے معاہدے (سندھ طاس معاہدہ 1960) کے تحت بھارت کو مغربی دریاؤں (چناب، جہلم، اور سندھ) پر محدود حقوق حاصل ہیں، لیکن وہ پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ اپنے حصے کے پانی کو موثر طریقے سے استعمال نہیں کر رہا۔ اگرچہ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، لیکن اس کا حل صرف نئے ڈیمز اور آبپاشی کے جدید نظاموں کو اپنانے میں ہے، نہ کہ بین الاقوامی دباؤ میں آکر اپنے حقوق سے دستبردار ہونے میں۔
اب سندھ اور پنجاب کے درمیان نہری نظام پر نئے تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ سندھ کا دعویٰ ہے کہ پنجاب نے نئے نہری نظام بنا کر اس کے حصے کا پانی کم کر دیا ہے، جبکہ پنجاب کا موقف ہے کہ یہ پانی اس کا اپنا ہے۔ اس تنازعے کا حل صرف ایک شفاف اور ٹیکنیکل بنیادوں پر مبنی پانی کی تقسیم کا نظام ہے۔ جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، ڈیٹا اینالیسس، اور خودکار پیمائش کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو مانیٹر کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، صوبوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو پانی کی تقسیم کی نگرانی کرے۔
حل کا راستہ یہ ہے کہ پاکستان فوری طور پر نئے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ دے، خاص طور پر ڈائمنڈ بش ڈیم اور دیگر چھوٹے ڈیمز جو متنازعہ نہیں ہیں۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے آبپاشی کے جدید طریقے (جیسے ڈرپ اریگیشن) کو فروغ دیا جائے۔ صوبائی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے آبی معاہدے کو جدید خطوط پر ازسر نو تشکیل دیا جائے اور اس پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں، تو پاکستان نہ صرف پانی کے بحران پر قابو پا سکتا ہے بلکہ اپنی زرعی اور صنعتی ترقی کو بھی نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ سندھ کا مؤقف ہے کہ نئے نہری منصوبے اس کے حصے کے پانی پر بنائے جا رہے ہیں جبکہ پنجاب کہتا ہے کہ یہ منصوبے اس کے حصے کے اندر ہیں اور قانون کے مطابق ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان نے 1991 میں ایک بین الصوبائی واٹر ایگریمنٹ کیا تھا جس میں تمام صوبوں کے لیے پانی کی تقسیم کا تعین کیا گیا تھا، لیکن اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ پانی کے بہاؤ، ضیاع، غیر قانونی سائفن، چوری، اور جدید نظامِ آبپاشی کے فقدان نے مسائل کو مزید بگاڑ دیا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی نعروں اور الزامات سے ہٹ کر ایک خالص تکنیکی، سائنسی اور انتظامی مسئلہ سمجھ کر حل کیا جائے۔ سب سے پہلے تو تمام صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر مکمل شفافیت کے ساتھ عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ دوسرے، پانی کے بہاؤ اور استعمال کی حقیقی وقت میں نگرانی کے لیے جدید ترین سینسر اور ڈیجیٹل نظام متعارف کروایا جائے تاکہ شکوک و شبہات ختم ہوں۔ تیسرے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیمز کی فوری تعمیر شروع کی جائے تاکہ ضائع ہونے والے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔ چوتھے، بڑے منصوبوں پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے قومی مکالمے کا آغاز کیا جائے جس میں ہر صوبے کے ماہرین، دانشور، زمیندار اور عوامی نمائندے شامل ہوں۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے آبپاشی کے جدید طریقے (جیسے ڈرپ اریگیشن) کو فروغ دیا جائے۔
صوبائی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے آبی معاہدے کو جدید خطوط پر ازسر نو تشکیل دیا جائے اور اس پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں، تو پاکستان نہ صرف پانی کے بحران پر قابو پا سکتا ہے بلکہ اپنی زرعی اور صنعتی ترقی کو بھی نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہاس وقت پاکستان کو پانی کے مسئلے کو قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر دیکھنا ہوگا، کیونکہ جس ملک کے پاس پانی نہ ہو، وہاں نہ زراعت ہو سکتی ہے، نہ صنعت، نہ خوراک کی خود کفالت، اور نہ عوامی خوشحالی۔ اگر اب بھی ہم نے اس اہم مسئلے کو صرف سیاست کی نذر کر دیا تو آنے والے وقت میں پانی کا بحران نہ صرف ہمارے معیشتی ڈھانچے کو تباہ کر دے گا بلکہ بین الصوبائی ہم آہنگی کو بھی شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔