معاشی حالات سے پریشان کاروباری طبقہ
پاکستان کا کاروباری طبقہ موجودہ حالات سے بہت پریشان ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی خرید وفروخت بُری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے مارکیٹ میں خریداری انتہائی کم ہے جو ریٹئل کے کاروبار سے لیکر صنعت کے شعبہ تک ہر قسم کے کاروباری طبقہ کے لیے مسائل کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس ہفتے گیلپ کے ہونے والے سروے کے مطابق اکثریت کاروباری طبقہ نے اس معاشی حالات کو پریشان کُن قرار دیا ہے۔ اس معاشی پریشانی کی وجہ ملکی اور غیر ملکی معاشی اور سیاسی حالات ہیں۔ دُنیا کی معشیتیں شدید دُباؤ کا شکار ہیں۔ اگرچہ برطانیہ کی خبریں پاکستان کے میڈیا میں آتی رہتی ہیں مگر یورپ کے باقی ممالک کی معشیتیں بھی کساد بازاری کا شکار ہیں۔ اس کساد بازاری سے بنکنگ سیکڑ بھی بُحران کا شکار ہوئے ہیں اور یورپ کے دو بڑے بنک شدید مسائل کا شکار ہیں۔ کساد بازاری کی وجہ سے ہر ملک میں سیاسی تناؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ مشرق و مغرب کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور یوکرائن کی جنگ کے بعد اسمیں خاصی شدت آئی ہے۔ تیل، گیس اور کوئلہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ غریب ممالک کی بات چھوڑیں یورپ کے امیر ممالک کو بھی نہیں سمجھ آرہی کے حالات کو کیسے قابو کیا جائے۔
اسمیں کوئی شک نہیں کے پاکستان کے مسائل اس دفعہ پہلے کے مقابلے میں بہت ذیادہ ہیں۔ پاکستان کو ایک انتہائی بڑے تجارتی خسارہ کا سامنا ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان کا قرضہ بھی انتہائی خطرناک حدود کو چھو رہا ہے اور اسے قرضہ کی واپسی کی قسط کی ادائیگی کے لیے بھی پاکستان کو ہر سال اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ اب حکومت پر واضح ہو چکا ہے کے اتنی خطیر رقم کوئی بھی پاکستان کو دینے کو تیار نہیں ہے۔ ایک تو اس دفعہ بہت بڑی رقم درکار ہے، دوسرا پاکستان کی فی الحال وہ اہمیت نہیں جو ماضی میں رہی، کچھ مغرب افغانستان کی وجہ سے ناراض بھی ہے اوراس وقت تمام ممالک خود معاشی مُشکلات کا شکار ہیں اور ان کی توجہ اپنے حالات کو ٹھیک کرنے پر ہے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کے موجودہ حکومت نے حالات بہتر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہر دروازہ کھٹکھا کے دیکھ لیے ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا جارہا تھا کے وہ جون میں ڈیفالٹ کر جائیگا۔ مگر شہباز شریف، جنرل باجوہ اور بلاول بھٹو کی انتھک کوششوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشیت تباہی سے بچی ہوئی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کے ہم اندرونی مسائل کو حل کر کے اپنی صنعت کو بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ پاکستان کی صنعت کو بحال کر کے ہی ہم اس معاشی بُحران سے نکل سکتےہیں۔ اسلیے ضروری ہے کے اس جانب ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے۔ پاکستان کو اس ضمن میں ایک مارشل پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو موجودہ تجارتی شراکت داروں کے ساتھ ساتھ ایران، روس اور وسطحی ایشیاء کے ممالک سے بھی تجارت میں اضافہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کو ملکی اور غیرملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مربوط اور حقیقت پسندانہ پالیسی بنانی چاہیے۔ ہمیں افغانستان کے ہماری معشیت پر پڑہنے والے اثرات کو بھٰی مدنظر رکھنا چاہیے اور ایسے اقدام کرنے چاہیے جس سے دونوں ممالک کی معشیت کو فائدہ ہو۔ اسکے ساتھ ہمیں ڈیفالٹ کے خوف سے نکل کر اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے جامعہ منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔ پاکستان کو اب ٹھوس اقدامات جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔