EconomyFeatured

پاکستانی کسان پریشان کیوں ہیں؟

گر چہ پاکستان میں زرعی انقلاب کے باےر میں بہت بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی زراعت انتہائی مسائل کا شکار ہے اور چھوٹا کاشت کار مالی مٗشکلات کی وجہ سے ہمیشہ پریشان ہی رہتا ہے۔ انہیں وجوہات کی بنا پر پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار انتہائی کم ہے اور اِس شعبہ میں بھی بھارت ہم سے بہت آگے ہے۔ ہمارے ملک میں باتوں اور نعروں سے ہی حالات حل کئیے جاتے ہیں جبکہ حقیقت اِس سے برعکس ہوتی ہے۔ پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ مناسب مالی وسائل کا ہے۔ قرضہ کا حصول دشوار ہے اور عموما ً بڑے زمیندار ہی قرضہ لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔

دوسر ابڑا مسئلہ پانی کی کمی کا ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اسے مزید خراب کردیا ہے۔ بجلی کے بل عام کسان کی استعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اِس کے مقابلے میں بھارتی کسان کو ٹیوب ویل کے لئیے بجلی تقریبا ً مفت ہے۔ اور انہیں ماہانہ صرف 200 پاکستان روپوں کے برابر ماہانہ بل اد کیے جاتے ہیں۔

پاکستانی نہری نطام کسی زمانے میں سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا۔ مگر پچھلے چند سالوں میں اِس کی دیکھ بھال کا کوئی مناسب بندوبست نہیں کیا جاتا ۔جس کی وجہ سے پانی کے ضیاع میں اضافہ ہوا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ بھارت اور افغانستان پاکستانی پانی کے اوپر مسلسل ڈیم بنا رہے ہیں جس سے پانی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر چہ کئی علاقوں میں کسانوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہےمگر اِس  کے باوجود پانی کی ایک کثیر مقدار بلا استعمال سمندر میں چلی جاتی ہے۔

پاکستان میں کاشتکاری جدید طریقوں سے نہیں کی جاتی۔ اگر چہ بڑے زمینداروں نے مشینیں رکھی ہوئی ہیں۔ مگر عام کسان کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی یہ سمجھ بوجھ ۔ پاکستان میں زمین کی زرخیز ی بھی کم ہو رہیں کیوں کے کسان نہ تو مناسب مقدار میں کھاد استعمال کرسکتا ہے اور نہ  ہی اُسے اِس کی زرخیزی برقرار رکھنے میں آگہی ہے۔

کسان کو ایک بہت بڑا مسئلہ مناسب وقت پر مناسب قیمت پر اور اچھی کوالٹی کے بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات کا حصول ہے۔ پاکستان میں ان تینوں چیزوں پر بڑی کمپنیوں اور ان کے ایجنٹوں کا قبضہ ہے۔ پاکستان میں عموما ً مختلف مراحل پر جب ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ بازار سے غائب ہوجاتی ہیں۔ اور مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔ ان تینوں چیزوں میں ملاوٹ بھی عام ہیں۔ اور عموماً گھٹیا یاملاوٹ والی چیزیں مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں۔ اِس کے مقابلے میں بھارت میں کسانوں کو مناسب وقت اور مناسب قیمت پر اصلی اور معیاری بیج، کھاد اور ادویات میسر ہوتی ہیں۔ ایک تخمینہ کے مطابق بھارت میں ہر فصل پر فی ایکڑ پاکستان کی نسبت ایک سے سوا لاکھ روپے کم اخراجات آتے ہیں۔ یہ بچت بجلی، بیج، کھاد اور ادویات کی کم قیمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔

ان تمام وجوہات اور محنت کے بعد جب فصل تیار ہوتی ہے۔ تو یہاں بھی کسان آڑھتیوں اور حکومتی اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ عموما ً جب بھی نئی فصل آتی ہے تو اِس کی قیمت حکومت طے شدہ قیمت سے کم ہوتی ہے۔ کیوں کہ کسانوں کی اکثریت کے پاس اِس فصل کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اِس لئے وہ اِسے فوری طور پر بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہاں پر بھی آڑھتی اور حکومتی اہلکار اِس مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں بھی گندم کے کاشتکار بہت پریشان ہیں۔ اگر چہ حکومت نے گند م کی قیمت 3900 روپے فی من رکھی ہے۔ مگر مارکیٹ میں گندم اِس سے کہیں کم قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ اسی طرح جب گنے کی فصل تیار ہوتی ہے تو شوگر مل والے جان بوجھ کر گنا اُٹھانے میں دیر کرتے ہیں اور کسان کی مجبوری دیکھتے ہئے ان کے ایجنٹ سستے داموں فصل خرید لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر حکومت زبانی جمع خرچ  تو بہت کرتی ہے۔ مگر حالات اُسی طرح خراب ہیں۔ اِس کے برعکس بھارت میں کسانوں کو اِس طرح تنگ نہیں کیا جاتا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اگر چہ بھارت میں کسانوں کو بہتر سہولتیں میسر ہیں۔ وہاں ان کو کھاد بیج اور ادویات پاکستانی کسانوں کی نسبت سستے داموں مل جاتی ہیں اور ان کا معیار بھی بہت اچھا ہے اور ان میں ملاوٹ بھی نہیں ہوتی اور وہ ہر وقت وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہیں۔ اِس کے ساتھ ٹیوب ویل کے لیے بجلی تقریبا ً مفت ہے۔ وہاں گندم کی حکومتی قیمت بھی پاکستان جتنی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کے بھارت میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان کی نسبت 15 سے 20 فیصد زیادہ ہے۔ مگر اِس کے باوجود بھارت میں کسان مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ اور اِس وقت بھی بھارت میں کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔ اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ک پاکستانی کسان کس قدر مسائل کا شکار ہوں گے۔