BusinessLatest

جنگ کے بعد امن کی اصل آزمائش

یقیناً یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان حالیہ پاک بھارت کشیدگی سے کامیابی کے ساتھ باہر نکل آیا ہے اور دنیا بھر میں اس کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کے اندر بھی بعض ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیلوں اور سینیئر سیاستدانوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکمت عملی ناکام رہی۔ یہ صورتحال نہایت خطرناک تھی مگر پاکستان نے اس خطرے سے خود کو بچایا۔ آج کے دور میں یہ بات مزید واضح ہو چکی ہے کہ کسی بھی ملک کو محض فوجی طاقت کے ذریعے زیر نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم پاکستان کو اب بھی تین بڑے خطرات کا سامنا ہے جو اس کی خودمختاری کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں: دہشت گردی، معاشی بدحالی اور سیاسی و صوبائی ہم آہنگی کی کمی۔

اگرچہ پاکستان نے 2021 میں دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بچاؤ حاصل کیا اور آج معیشت نسبتاً زیادہ مستحکم ہے۔ تجارتی خسارہ کم ہو چکا ہے، بلکہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں ہے، افراط زر جو کہ 44 فیصد تک جا پہنچی تھی اب ایک فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں شرح سود بھی 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد تک آ گئی ہے۔ یہ وہ کامیابیاں ہیں جنہیں حکومت اور عسکری قیادت دونوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور عالمی میڈیا نے بھی ان کامیابیوں کو سراہا ہے، بلوم برگ جیسے معتبر ادارے نے اسے ایک حیرت انگیز بحالی قرار دیا ہے کیونکہ 2021 میں پاکستان تقریباً دیوالیہ ہوچکا تھا۔ مگر اس کے باوجود یہ سمجھنا ضروری ہے کہ خطرہ مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے۔ اصل کامیابی اس وقت حاصل ہوگی جب پاکستان میں مسلسل ترقی، سرمایہ کاری، اور معاشی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ غربت، بے روزگاری اور ناامیدی وہ وجوہات ہیں جو نوجوانوں کو شدت پسندی اور ملک دشمن عناصر کے ہتھے چڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر حقیقی ترقی نہ ہو اور روزگار کے مواقع پیدا نہ ہوں تو امن و استحکام ایک خواب ہی رہے گا۔

دوسرا بڑا مسئلہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال تشویشناک ہے۔ اگرچہ سندھ، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حالات بہتر نظر آتے ہیں، مگر وہاں بھی خطرات موجود ہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بنیادی طور پر خیبرپختونخوا میں سرگرم ہے مگر اس کے حملے دیگر علاقوں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ سندھ کے کچے کے علاقے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے قبضے میں ہیں جنہوں نے ریاستی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے۔ ان تمام مسائل کے حل کے لیے محض عسکری کارروائی کافی نہیں، بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات بھی ضروری ہیں تاکہ نوجوانوں کو متبادل مواقع دیے جائیں اور وہ شدت پسند تنظیموں کی طرف نہ جائیں۔

تیسرا بڑا مسئلہ سیاسی اور نسلی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ پاکستان میں اس وقت شدید سیاسی پولرائزیشن ہے۔ مختلف صوبوں، سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی شدید کمی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے ٹھوس اور جرات مندانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ صوبوں کو مالی اور انتظامی خودمختاری دی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکیں۔ وزیراعظم، آرمی چیف، چیف جسٹس اور دیگر اہم عہدوں پر اختیارات کا بے جا ارتکاز مسائل کو جنم دیتا ہے۔ فیصلے اجتماعی اداروں کے ذریعے ہونے چاہییں جیسے نیشنل سیکیورٹی کونسل، سی آئی ایف سی، کور کمانڈرز کانفرنس اور سپریم کورٹ کا مکمل بنچ، تاکہ کوئی ایک فرد ملک کی تقدیر کا اکیلا فیصلہ نہ کرے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد آپس میں تصادم میں آئے تو ملک کو نقصان ہوا۔ کئی بار انفرادی انا، مفاد یا غیر دانشمندانہ فیصلوں نے پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر پیچھے دھکیل دیا۔ اگرچہ موجودہ دور میں تمام ادارے ہم آہنگی کے ساتھ کام کررہے ہیں مگر اس سے ذیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اب جبکہ پاکستان پر کسی بیرونی فوجی جارحیت کا فوری خطرہ موجود نہیں، تو ہمیں اپنی اندرونی بیماریوں کی طرف بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ دہشت گردی، معاشی مسائل اور سیاسی تفرقے اتنے ہی خطرناک ہیں جتنی کوئی بیرونی جنگ ہو سکتی ہے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سوویت یونین جو دنیا کی سب سے بڑی ریاستوں میں شمار ہوتا تھا، جس کے پاس بے پناہ قدرتی وسائل، سب سے بڑی فوج، جدید اسلحہ اور ایٹمی طاقت موجود تھی، وہ بھی بکھر گیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کی اصل وجوہات فوجی کمزوری نہیں بلکہ معاشی بدحالی اور نسلی کشمکش تھیں۔ آج بھی چودہ ملکوں کی علیحدگی کے باوجود بھی روس کا رقبہ امریکہ اور کینیڈا کے مجموعی رقبے کے برابر ہے، مگر اس کے باوجود وہ ٹوٹ گیا۔ پاکستان کو اس سے سبق سیکھنا ہوگا۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کوملک کو مستحکم، خوشحال اور ہم آہنگ ریاست بنانے کے لیے چند اہم فیصلے کرنے ہوں گے، ورنہ صرف خارجی خطرات نہیں بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اندرونی کمزوریاں اس سے ذیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں۔