سیاست میں ایلون مسک کی غلطیاں اور اس کے نتائج
ایلون مسک گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا کے سب سے زیادہ بااثر اور ذہین کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے رہے ہیں۔ ٹیسلا، اسپیس ایکس، اسٹار لنک اور نیورالنک جیسی کامیاب کمپنیوں کے بانی کی حیثیت سے انہیں دنیا بھر میں سراہا جاتا رہا۔ وہ جدید ٹیکنالوجی، خلائی سائنس اور توانائی کے شعبے میں ایک انقلابی شخصیت مانے جاتے تھے۔ مگر ان کا حالیہ فیصلہ کہ وہ سیاست میں قدم رکھیں گے، ان کے لیے ایک مہنگی اور تباہ کن غلطی ثابت ہوا۔ کاروبار اور سیاست دو الگ دنیائیں ہیں جن کو ایک ساتھ لے کر چلنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن بھی ثابت ہوتا ہے۔ ایلون مسک کی سیاست میں مختصر مداخلت نے ان کی عالمی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا اور ان کے مالیاتی امپائر کو گہرا دھچکا پہنچایا۔
ایلون مسک نے نہ صرف ڈوج سے خود کو الگ کر لیا بلکہ انہوں نے اپنے تمام تر فوکس کو اپنے بزنس امپائر پر مرکوز کرنے کا اعلان کیا۔ لیکن یہ فیصلہ اس وقت آیا جب ان کی سیاسی مداخلت کی وجہ سے پہلے ہی ان کی کمپنیوں پر منفی اثرات مرتب ہو چکے تھے۔ انہوں نے امریکی وفاقی اداروں میں بڑے پیمانے پر ملازمین کو برطرف کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی پالیسیوں سے حکومت کو دو ٹریلین ڈالر کی بچت ہوگی، جس کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا، لیکن یہ بیان مکمل طور پر گمراہ کن ثابت ہوا۔ ہزاروں افراد براہ راست اور لاکھوں افراد بالواسطہ طور پر بے روزگار ہو گئے، جبکہ حکومت کو نہ کوئی نمایاں بچت ہوئی اور نہ ہی اقتصادی استحکام آیا۔ اس کے برعکس، وفاقی حکومت کا دائرہ کار خطرناک حد تک سکڑ گیا جس کی وجہ سے نہ صرف عوامی خدمات متاثر ہوئیں بلکہ لاکھوں شہریوں کا حکومت پر اعتماد بھی متزلزل ہو گیا۔
ایلون مسک نے نہ صرف امریکہ میں ڈیموکریٹس کو ناراض کیا بلکہ یورپ میں دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کی حمایت میں بھی کھل کر بیانات دیے۔ انہوں نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو جماعت اے ایف ڈی کے کنونشن سے خطاب کیا اور مہاجرین کے خلاف سخت بیانات دیے۔ ان کی تقریر میں غیر سفید فام افراد کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کی گئی، جو دنیا بھر میں تنقید کی زد میں آئی۔ مزید یہ کہ ایلون مسک کے مبینہ نازی سلیوٹ نے یورپ میں شدید ردعمل کو جنم دیا اور کئی یورپی حکومتوں نے ان سے فاصلہ اختیار کر لیا۔ اس تمام سیاسی مہم جوئی کے نتیجے میں اے ایف ڈی کو جرمنی کے انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
عالمی سطح پر ایلون مسک کی کمپنیوں کے خلاف احتجاج کی لہر دوڑ گئی، خاص طور پر ٹیسلا کے شورومز اور ڈیلرشپس کے باہر مظاہرے ہوئے۔ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں ٹیسلا کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ یورپی مارکیٹ میں 45 فیصد تک فروخت میں گراوٹ آئی جبکہ امریکہ اور کینیڈا میں بھی طلب کم ہو گئی۔ ٹیسلا کے حصص کی قیمت تیزی سے گری اور خبریں سامنے آئیں کہ ٹیسلا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ایلون مسک سے سی ای او کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ اس صورت حال نے خود ایلون مسک کو اس حقیقت کا احساس دلایا کہ ان کا سیاسی سفر، خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، ان کے لیے کتنا مہلک ثابت ہوا ہے۔
اب بظاہر ایلون مسک نے سیاست سے ہمیشہ کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، لیکن ان کے اعمال کا جو نقصان ہوا ہے وہ فوری طور پر ختم ہونے والا نہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں، خاص طور پر ترقی پذیر اور غیر سفید فام اکثریتی علاقوں میں، ایلون مسک کی انتہا پسند سوچ اور متعصبانہ رویے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی سابقہ ساکھ، جو کہ جدیدیت، سائنس اور ترقی کی علامت تھی، اب متنازعہ نظریات اور متعصبانہ سیاسی بیانیے سے جڑ چکی ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایلون مسک اب ایک کاروباری لیڈر سے زیادہ ایک سیاسی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں، جس کی ساکھ متاثر ہو چکی ہے۔ چاہے وہ دوبارہ مکمل طور پر بزنس کی طرف رجوع کر بھی لیں، عوام اور سرمایہ کاروں کی نظر میں وہ پہلے جیسے شفاف اور قابلِ اعتماد نہیں رہے۔ وقت ہی بتائے گا کہ کیا وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کر پائیں گے یا ان کی یہ سیاسی لغزش ان کی کامیاب بزنس تاریخ میں ایک مستقل داغ بن کر رہ جائے گی۔