خراب غذائی عادات اور صحت پر اس کے مضر اثرات
پاکستان میں غذائی عادات کا بگڑنا ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے بلکہ کئی بیماریوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔ غیر متوازن اور غیر صحت بخش غذا کا بڑھتا ہوا رجحان، صفائی کی کمی اور غربت کے مسائل نے مل کر صحت کے مسائل کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ معدے، جگر، گردوں، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں کے علاوہ ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی جیسے انفیکشنز میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان میں لوگوں کی غذا میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے۔ چند دہائیوں پہلے تک روایتی کھانے جیسے سبزیاں، دالیں اور تازہ گھریلو کھانا زیادہ استعمال ہوتے تھے، لیکن اب بازاری کھانوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ پراسیسڈ فوڈ، جنک فوڈ, مرغن اور تیز مسالے دار کھانے ہماری روزمرہ خوراک کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ ان غذائی عادات کے منفی اثرات یہ ہیں:
معدے کے مسائل: تیزابیت، بدہضمی اور السر جیسی بیماریاں عام ہو چکی ہیں، جن کی بڑی وجہ غیر صحت مند کھانے، بے وقت کھانا اور کھانے میں زیادہ چکنائی اور تیل کا استعمال ہے۔ بازاری کھانوں میں حفظان صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا، جس سے معدے کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
گردوں کے مسائل: نمک اور چینی کی زیادہ مقدار اور پانی کی کمی گردوں پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ گردے زیادہ نمک اور شوگر کو فلٹر کرنے کے لیے زیادہ کام کرتے ہیں، جس سے ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور گردوں میں پتھری یا گردے فیل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
جگر کی بیماریاں: پراسیسڈ فوڈ اور غیر معیاری کھانوں میں شامل مضر کیمیکلز اور اضافی چکنائی جگر کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی جیسے وائرس بھی آلودہ کھانے اور پانی کے ذریعے پھیلتے ہیں، جو جگر کے مسائل میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔
بلڈ پریشر اور شوگر: غیر متوازن غذا، زیادہ نمک اور چکنائی کا استعمال بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے، جبکہ چینی کی زیادتی شوگر کی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے، اور اس کی ایک بڑی وجہ غیر صحت مند غذائی عادات ہیں۔
غذائی مسائل میں صفائی کی کمی بھی ایک بڑا عنصر ہے۔ بازاروں میں کھانے کی اشیاء غیر معیاری ماحول میں تیار کی جاتی ہیں، اور صفائی کے اصولوں کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ گندے برتنوں، آلودہ پانی اور غیر محفوظ طریقوں سے تیار کی گئی غذا ہیپاٹائٹس اور معدے کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔ عوام کو ملنے والا پینے کا پانی اکثر آلودہ ہوتا ہے، جس سے پیٹ کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ صفائی اور حفظان صحت کا فقدان بیماریوں کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اور یہ مسئلہ دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں عام ہے۔
پاکستان میں غربت ایک بڑی حقیقت ہے، اور غربت کی وجہ سے لوگ سستے اور غیر معیاری کھانے پر انحصار کرتے ہیں۔ صحت مند کھانا عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے، اور وہ بازاری کھانے یا کم قیمت کھانے کی طرف مائل ہوتے ہیں، جن میں غذائیت کی کمی ہوتی ہے۔ غربت اور لاعلمی کی وجہ سے لوگ صحت مند غذا کے فوائد سے ناواقف ہیں۔ لوگ صرف پیٹ بھرنے کو کافی سمجھتے ہیں، جبکہ غذائیت اور صحت کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔
صحت مند زندگی گزارنے کے لیے شعور اور آگاہی پیدا کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں لوگوں کو صحت مند کھانے اور صفائی کی اہمیت سمجھانے کے لیے چند اقدامات کیے جا سکتے ہیں. حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں میڈیا، سوشل میڈیا، اور دیہات میں آگاہی مہمات چلا کر لوگوں کو صحت مند طرزِ زندگی کے بارے میں آگاہ کریں۔ اسکولوں اور کالجوں میں بھی صحت کی تعلیم کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی صحت کا خیال رکھنے کی عادت ہو۔
حکومت کو بازاروں اور ہوٹلوں میں کھانے کی تیاری اور صفائی کے معیارات کا سختی سے نفاذ کرنا چاہیے۔ بازاروں میں بیچے جانے والے کھانوں کی کوالٹی کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے تاکہ عوام کو صحت مند خوراک فراہم کی جا سکے۔ لوگوں کو صحت مند کھانے اور متوازن غذا کے بارے میں تعلیم دینا بہت ضروری ہے۔ ٹی وی پروگرامز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور تعلیمی اداروں میں ایسے کورسز متعارف کروائے جا سکتے ہیں جو عوام کو صحیح اور متوازن غذا کے فوائد سے آگاہ کریں۔ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے لوگوں کو معاشی طور پر مستحکم بنانا ضروری ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے حکومتی پالیسیاں اور اقدامات غربت میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں، جس سے لوگوں کو صحت مند کھانے کی استطاعت ہو۔
پاکستان میں خراب ہوتی غذائی عادات، صفائی کی کمی اور غربت کی وجہ سے صحت کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ معدہ، جگر، گردے، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریاں عام ہو چکی ہیں، جو کہ غیر صحت مند طرزِ زندگی کی عکاسی کرتی ہیں۔ عوام کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے شعور، آگاہی اور حکومت کے موثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔