جنوبی ایشیا میں صنعتی ترقی اور غربت کا چیلنج
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً پچیس کروڑ ہے، جس کا مطلب ہے کہ ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تعداد کئی ممالک کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے، جو ایک تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ملک کے لیے اس سطح کی غربت نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور سیاسی لحاظ سے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان نے 1960 کی دہائی میں ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر نمایاں کارکردگی دکھائی تھی، لیکن 1970 کی دہائی میں صنعتوں کی قومیانے کی پالیسی نے اس ترقی کو زوال میں بدل دیا۔ اس کے بعد صنعتی ترقی کو مسلسل نظرانداز کیا گیا۔ سرکاری محکموں میں بدعنوانی، بیوروکریسی کی پیچیدگیاں، امن و امان کی ابتر صورتحال اور پالیسیوں کا عدم تسلسل وہ عوامل تھے جن کی وجہ سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں نے پاکستان سے منہ موڑا بلکہ مقامی صنعت کار بھی اپنے کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان کے بہت سے پیداواری یونٹس متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش، ویتنام اور تھائی لینڈ جیسے ممالک منتقل ہو چکے ہیں، جہاں بہتر کاروباری ماحول، سرمایہ کار دوست پالیسیاں اور مستحکم حکومتیں دستیاب تھیں۔
اگر پاکستان کو غربت کے اس دائرے سے نکلنا ہے تو اسے سنجیدہ اور مربوط صنعتی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اس میں نہ صرف مقامی صنعتوں کے فروغ کے لیے سہولیات دینا ہوں گی بلکہ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی ایک محفوظ اور پرکشش ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ برآمدات پر انحصار بڑھانا، زرعی پیداوار کو صنعتی بنیادوں پر استوار کرنا، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو مراعات دینا، اور جدید ٹیکنالوجی کو مقامی سطح پر متعارف کرانا وقت کی ضرورت ہے۔ نیز، تعلیمی نظام کو بھی موجودہ صنعتی اور تجارتی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے تاکہ ملک کے نوجوان ہنر مند بن کر معیشت کا حصہ بن سکیں۔
دوسری جانب بھارت کی صورتحال اگرچہ کچھ بہتر ضرور ہے، مگر وہاں بھی سماجی عدم مساوات اور غربت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب ہے اور اندازوں کے مطابق وہاں بھی لاکھوں افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق بھارت کی دولت کا 40 فیصد صرف ایک فیصد طبقے کے ہاتھ میں مرتکز ہے جبکہ نچلے طبقے کی آمدنی بعض اوقات سب صحارا افریقی ممالک سے بھی کم ہے۔ ایسی عدم مساوات معاشرتی کشیدگی کو جنم دیتی ہے اور دیرپا ترقی کے لیے ایک رکاوٹ بن سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے لیے غربت کا خاتمہ ایک مشترکہ ہدف ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے پاس وسیع انسانی وسائل، قدرتی ذخائر، زرعی بنیاد اور نوجوان آبادی کی طاقت موجود ہے۔ اگر دونوں ممالک اپنی توانائیاں آپس کی کشیدگی میں صرف کرنے کے بجائے غربت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل بنائیں، تو نہ صرف دونوں ملکوں کی عوام کو فائدہ ہوگا بلکہ پورے خطے میں امن اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کی تجویز سیاسی اختلافات کے باوجود معاشی اعتبار سے ایک دانشمندانہ مشورہ تھی، جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات میں محتاط طرز عمل اپنانا ہوگا۔ اگرچہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں، لیکن ان کی شرائط اکثر ایسی ہوتی ہیں جو ترقی پذیر معیشتوں کی اندرونی صنعتوں اور خودمختاری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مقامی پالیسیاں مقامی حالات کے مطابق بنائی جائیں اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا جائے۔
مجموعی طور پر، پاکستان اور بھارت کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ غربت صرف ایک اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، قومی سلامتی اور معاشرتی استحکام کا مسئلہ بھی ہے۔ جب تک خطے کے ممالک غربت کے خاتمے کو اولین ترجیح نہیں دیں گے، ترقی کا خواب محض ایک سراب ہی رہے گا۔