اسٹیل مل کی نجکاری
ایہ بہت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جیسا غریب ملک جس کے پاس محدود وسائل ہیں اور ذیادہ تر آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے اربوں روپے پبلک سیکٹر کی کارپوریشن پر ضائع کردیتی ہے۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز کا مقصد پاکستان میں صنعتوں کی ترقی تھا خاص کر ان شعبوں میں جہاں صنعت کار سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتےہیں۔ ایسی سرمایہ کاری کا مقصد ملک میں روزگار کے ساتھ ساتھ حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرنا تھا۔ بدقسمتی سے سوائے سیاسی مقاصد کے پبلک سیکٹر مکمل طور پر ناکام رہا۔ اس سیکٹر میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان سٹیل مل نے کیا اور یہ پاکستان کی معیشت پر بہت بڑا بوجھ بن گیا۔ اگرچہ، پچھلے بیس سالوں میں اس کی نجکاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ تمام ماہرین اور بڑی جماعتیں اس کے حق میں ہیں لیکن ایسا نہیں کیا جا سکا جس کے نتیجے میں پاکستانی خزانے کو ابتک اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2009 سے ابتک سٹیل مل کو 190 ارب روپے کا مجموعی نقصان ہوا ہے۔ اسے 90 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دیا گیا ہے۔ عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے 55 ارب ادا کیے گے ہیں۔ 2007 میں اس کی پیداواری صلاحیت 93 فیصد تھی ، اسکے بعد سے اس کی پیداواری صلاحیت کبھی بھی 15 فیصد سے ذیادہ نہیں رہی۔ اسٹیل مل کا ماہانہ خسارہ ستر کروڑ روپے ہے جو حکومتی خرانہ سے پورا کیا جاتا ہے۔
جون 2015 میں سٹیل مل نے پیداوار بند کر دی گئی تھی لیکن 14،753 ملازمین کے لیے کوئی بھی منصوبہ نہ تھا اور ان کو تنخواہ مسلسل دی جارہی تھی۔ 2019 میں سٹیل مل ملازمین کی تعداد گھٹ کر 9،350 رہ گئی ہے۔ حکومت ک پہلے ان تمام ملازمین کو برطرف کرنے کا منصوبہ تھا لیکن نومبر 2020 میں ساڑھے 4 ہزار سے زائد ملازمین کو نکال دیا گیا۔ اب حکومت سٹیل مل کو دو کمپنیوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اگرچہ ، کچھ سیاسی حلقے سٹیل مل ملازمین کی ملازمت ختم کرنے پر تنقید کر رہی ہیں لیکن معاشی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تنقید بلا جواز ہے-
نجکاری کا عمل حکومت کی جانب سے ایک دانشمندانہ اقدام ہے سلیے سٹیل مل کو مزید تاخیر کے بغیر پرائیویٹائز کر دینا چاہیے تاکہ یہ فرم فعال ہو سکے اور نجی شعبہ میں نہ صرف ملازمت میں اضافہ کا باعث بنے بلکہ حکومت کے لیے ٹیکس کی شکل میں آمدنی کا ذریعہ بھی بنے۔ اسطرح پاکستانی معشیت میں ہر طرح مثبت کردار ادا کرے۔