پروسیسرز کی صنعت میں برتری کے لیے جنگ
پروسیسرز آج کے دور میں ٹیکنالوجی کے دل و دماغ ہیں، جن کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ دنیا کی ترقی اور ڈیجیٹلائزیشن میں پروسیسرز کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ پہلے دنیا کی معیشت کا مرکز تیل تھا، لیکن اب پروسیسرز نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ جو بھی قوم یا کمپنی پروسیسرز میں آگے ہوگی، وہی ٹیکنالوجی کی قیادت کرے گی۔ یہ نہ صرف کمپیوٹرز اور اسمارٹ فونز بلکہ مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، اور خود کار گاڑیوں کے لیے بھی لازمی ہیں۔ اس لیے پروسیسرز کو عالمی ترقی کا محرک اور اقتصادی ترقی کا نیا محور کہا جا رہا ہے۔
پروسیسرز کی ڈیزائننگ اور مینوفیکچرنگ دو الگ عمل ہیں، اور ان میں مختلف کمپنیاں شامل ہیں۔ امریکہ کی کمپنیاں، جیسے کہ انٹیل اور اے ایم ڈی، پروسیسرز کا ڈیزائن تیار کرتی ہیں، جب کہ تائیوان کی ٹی ایس ایم سی اور جنوبی کوریا کی سام سنگ جیسے ادارے انہیں بناتے ہیں۔ یہ کمپنیاں عالمی طلب کو پورا کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ دوسری جانب، ایپل، سام سنگ، اور گوگل جیسے برانڈز ان پروسیسرز کو اپنے آلات میں استعمال کرتے ہیں، جو انہیں صارفین تک پہنچاتے ہیں۔
پروسیسرز کی مینوفیکچرنگ میں تائیوان، جنوبی کوریا، اور چین کا اہم کردار ہے۔ تائیوان کی ٹی ایس ایم سی دنیا کی سب سے بڑی پروسیسر مینوفیکچرر ہے، اور جنوبی کوریا کی سام سنگ اس کے قریب ترین مدمقابل ہے۔ چین بھی اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس کے لیے امریکی پابندیاں ایک چیلنج ہیں۔
امریکہ، یورپ، اور چین پروسیسرز کی تیاری میں اپنی خود مختاری حاصل کرنے کے لیے "چپ وار” میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے اپنی انڈسٹری کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی ہے، جب کہ یورپ اپنی چپ انڈسٹری کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ چین بھی اپنے ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ میں خود کفیل ہونے کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ یہ ممالک جانتے ہیں کہ پروسیسرز کی برتری عالمی طاقت کے لیے ضروری ہے، اور اس میدان میں پیچھے رہنا مہنگا ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کو بھی پروسیسرز کی تیاری میں قدم رکھنا چاہیے۔ اگرچہ ملک میں اس وقت تکنیکی انفراسٹرکچر کمزور ہے، لیکن حکومت کو ابتدائی سطح کے پروسیسرز کی مینوفیکچرنگ کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ مقامی ضروریات بھی پوری ہوں گی۔ اگر پاکستان اس شعبے میں وقت پر قدم اٹھائے تو یہ مستقبل کی ٹیکنالوجی میں حصہ دار بن سکتا ہے۔