ممکنہ معاشی کساد بازاری اور پاکستان کے لیے خطرات
دنیا بھر میں معاشی کساد بازاری کے خدشات بڑھ رہے ہیں، اور بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑے اقتصادی بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ پاکستان، جو پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے، اس عالمی کساد بازاری سے شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ اگرچہ ہر ملک کی معیشت پر کساد بازاری کے اثرات مختلف ہوتے ہیں، لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کے نتائج خاصے سنگین ہو سکتے ہیں۔
تیل کی قیمتوں پر کساد بازاری کے اثرات کافی واضح ہیں۔ عام طور پر، جب عالمی معیشت سست روی کا شکار ہوتی ہے تو تیل کی طلب کم ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں گر سکتی ہیں۔ تاہم، پاکستان کے لیے یہ صورتحال مکمل فائدہ مند نہیں ہو گی کیونکہ ملک کا انحصار درآمدی تیل پر ہے اور کرنسی کی کمزوری کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بھی یہ ریلیف محدود ہو سکتا ہے۔ اگر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں گرتی ہیں تو اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ کمی آ سکتی ہے، لیکن ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ اس فائدے کو کم کر دے گی۔
رئیل اسٹیٹ کا شعبہ بھی کساد بازاری سے بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ ہمیشہ سے ایک محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن معاشی بدحالی کے دوران لوگوں کی خریداری کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے پراپرٹی کی مانگ میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، بینکوں سے قرضے لینا مشکل ہو جاتا ہے، کیونکہ مالیاتی ادارے خطرے سے بچنے کے لیے قرضوں کی شرائط سخت کر دیتے ہیں۔ اگر رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں گرتی ہیں تو یہ ان لوگوں کے لیے مسئلہ بن سکتا ہے جنہوں نے مہنگے داموں پر پراپرٹیز خریدی ہوں گی، اور ان کی سرمایہ کاری کا نقصان ہو سکتا ہے۔
صنعتی اور برآمداتی شعبے پر بھی کساد بازاری کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کی برآمدات، خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات، عالمی طلب میں کمی کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ اگر بیرونی منڈیوں میں خریداری کم ہوتی ہے تو پاکستانی مصنوعات کی فروخت گھٹ سکتی ہے، جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، صنعتی پیداوار میں کمی سے روزگار کے مواقع بھی کم ہو سکتے ہیں، جس سے بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو گا۔
غربت اور مہنگائی میں اضافہ بھی کساد بازاری کا ایک بڑا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ جب معیشت سکڑتی ہے تو روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، اجرتیں جامد رہتی ہیں، یا بعض اوقات تنخواہوں میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عوام کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے، اور ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا، کیونکہ کم ٹیکس ریونیو اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
اگرچہ کساد بازاری کے اثرات پاکستان کے لیے تشویشناک ہیں، لیکن اس سے نمٹنے کے لیے مناسب پالیسیاں اور منصوبہ بندی کچھ حد تک اس کے اثرات کو کم کر سکتی ہیں۔ زراعت، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو فروغ دینے سے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے برآمدات کو متنوع بنانے اور غیر ضروری درآمدات کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہو گی۔ اگر حکومت اور عوام مل کر کام کریں تو کساد بازاری کے مشکل دور سے نکلنا ممکن ہو سکتا ہے۔