افغان مہاجرین اور پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو حالیہ دنوں میں ایک بڑی تعداد میں واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اب نہ صرف پاکستان کی داخلی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ ان مہاجرین کی واپسی قومی سلامتی، معاشی دباؤ اور سماجی تنازعات کی بنا پر ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے افغان مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے، مگر اب جب کہ افغانستان میں ایک سیاسی سیٹ اپ قائم ہو چکا ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ یہ مہاجرین اپنے ملک واپس جا کر وہاں کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔
اس معاملے میں سب سے اہم عنصر سیکیورٹی کا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغان مہاجرین کی آڑ میں کئی شدت پسند تنظیموں نے ملک میں داخلہ حاصل کیا ہے، خاص طور پر جب سے امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کیا ہے، پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں پاکستان میں دوبارہ منظم ہو رہی ہیں اور ان کے روابط افغانستان سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں حکومت پاکستان سمجھتی ہے کہ مہاجرین کی بغیر دستاویزات موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
سماجی سطح پر بھی افغان مہاجرین کی موجودگی نے کئی مسائل جنم دیے ہیں۔ مقامی لوگوں کو روزگار، رہائش اور سہولیات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بہت سے افغان مہاجرین شہروں میں غیرقانونی طور پر کاروبار کر رہے ہیں جس سے پاکستانی شہریوں کے لیے معاشی مواقع محدود ہو رہے ہیں۔ ان مہاجرین کے بچوں کی رجسٹریشن، تعلیم، صحت اور قانونی حیثیت جیسے مسائل بھی ایک بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ نتیجتاً عوامی سطح پر یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ حکومت ان مہاجرین کو واپس بھیجے تاکہ مقامی وسائل پر بوجھ کم ہو۔
سیاسی طور پر بھی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اپوزیشن اور عوامی حلقے حکومت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔ دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔ مگر پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا اور اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان خود اپنے شہریوں کی ذمہ داری لے۔
اقتصادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان ایک معاشی بحران کا شکار ہے۔ مہاجرین کی موجودگی سے بنیادی سہولیات پر بوجھ بڑھتا ہے اور غیرقانونی کاروبار مقامی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی دنیا سے امداد بھی اب محدود ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے حکومت کو مجبوراً سخت فیصلے لینے پڑ رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان مہاجرین کی واپسی کے بعد کیا افغانستان میں ان کے لیے روزگار اور تحفظ موجود ہو گا؟ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد دنیا کے اکثر ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی امداد بند ہو چکی ہے۔ ایسے میں مہاجرین کی واپسی افغانستان کی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔ یہی وہ موقع ہے جب علاقائی طاقتوں جیسے ایران، ازبکستان، تاجکستان، چین، روس اور امریکہ کو کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ افغانستان میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا جا سکے جہاں یہ مہاجرین باعزت زندگی گزار سکیں۔
یہ تمام ممالک اگر افغانستان کے ساتھ مل کر مشترکہ اقتصادی منصوبے، روزگار کے مواقع، تعلیم اور صحت کے منصوبے متعارف کروائیں تو نہ صرف مہاجرین کی بحالی ممکن ہو گی بلکہ افغانستان میں دیرپا امن کا قیام بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ ایک علاقائی پلیٹ فارم کے تحت ان مہاجرین کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے پالیسی سازی کی جا سکتی ہے تاکہ ان کی واپسی انسانی ہمدردی کے تحت ہو اور انہیں عزت نفس کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیا جا سکے۔
اگر افغان حکومت خود بھی سنجیدگی سے ان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو سہولت دے، ان کے لیے رہائش، روزگار اور تحفظ کا بندوبست کرے، اور دنیا کو یقین دہانی کروائے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ نہیں دے گی، تو یہ قدم افغانستان کی بہتری کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مؤثر سرحدی نگرانی، معلومات کا تبادلہ، اور ایک مشترکہ پالیسی ہی اس مسئلے کا دیرپا حل ہو سکتی ہے۔