صیح معاشی سمت کا تعین
پاکستانی عوام کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارے پاس قدرتی وسائل کی کمی ہے اور مستقبل میں بھی تیل، گیس یا سونا کا کوئی بڑا ذخیرہ ملنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ ہمیں برسوں یہ بتایا گیا کے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمیں اسکے علاوہ کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں، یہ پاکستانی عوام کے ساتھ سراسر جھوٹ تھا۔ امریکہ پاکستان سے بہت بڑا ملک ہے اور اس کے پاس بے پناہ زرعی اراضی ہے لیکن زراعت کے شعبہ کا حصہ اسکی معشیت میں ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم اکثر ہالینڈ کی مثال دیتے ہیں لیکن ان کی معیشت میں بھی زراعت کے شعبے کا حصہ 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ آج دنیا کے امیر ترین ممالک میں وہ ہیں جنہوں نے صنعت اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ترقی کی۔ ہمیں اب حقیقت پسندی کا سامنا کرنا چاہیے اور اس قسم کے نعروں سے کے ہم وسائل سے مالا مال ملک ہیں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
جہاں تک سیاحت کی صنعت کا تعلق ہے تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان میں سالانہ صرف دو لا کھ لوگ آتے ہیں اور ان میں سے بہت سے پاکستانی نژاد ہیں جنہوں نے مغربی ممالک کی قومیت لے رکھی ہے اور ان کے آنے کا مقصد اپنے خاندانی یا مالی معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے۔ جبکہ ہمارے برادر ملک ترکی میں ہر سال چار کروڑ لوگ سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔ یہ تعداد ہمارے ملک میں آنے والے سیاحوں سے دو سو گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ترکی کی آمدنی کا اصل ذریعہ اُسکی انڈسڑی ہے جس سے وہ سالانہ 260 ارب ڈالر کی اشیا برآمد کرتے ہیں جو ہماری برآمدات سے تقریباً دس گنا زیادہ ہیں۔ غربت، ناقص انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کا شُمار دُنیا کے خطرناک ترین مُمالک میں ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ہمارے پاس بڑے پیمانے پر سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے کچھ قابل ذکر مقامات بھی نہیں اور جو کچھ ہے وہ بھی توجہ نہ دینے کے باعث کوئی اتنی اچھی حالت میں نہیں ہیں۔ اسکے برعکس ترکی، سپین، اٹلی، فرانس، انڈونشیا، تھائی لینڈ، انڈیا وغیرہ میں ایسے مقامات کے فروغ کے لیے کام کیا جاتا ہے۔
ہمیں بھی وہ ہی سب کچھ کرنا چاہیے جو دنیا کے باقی ترقی یافتہ ممالک نے کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کے ہنر مند کارکن تیار کریں اور بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کو فروغ دیں۔ ہمیں آئی ٹی کے سیکٹر کو بھی بڑے پیمانے ترقی دینا چاہیے۔ اسکے ساتھ ہمیں دنیا کے ہر کونے میں اپنی مصنوعات کے لیے مواقع تلاش کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنے روایتی شراکت داروں یعنی مغرب، خلیجی ممالک، چین کے ساتھ ساتھ مزید ممالک سے بھی معا شی تعاون کو بڑھانا چاہیے۔ اسمیں وسطی ایشیائی ممالک اور روس بھی شامل ہیں جن سے معاشی تعاون کے لیےوسیع مواقع موجود ہیں۔
صنعتی شعبہ ہی ہماری ترقی کی واحد امید ہے اور اگر ہم نے اس پر تیزی سے کام نہ کیا تو ہم بہت جلد مُشکل کا شکار ہو جائیں گے اور ہمارا ملک غربت اور بے روزگاری کی ایسی لپیٹ میں آجائے گا جس سے نکلنا بہت مُشکل ہو جائے گا۔ معاشی تباہ حالی ملک کو انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم نے فوراً صحیح اقدام نہ اُٹھائے تو ہم بھی سری لنکا جیسی صورتحال کا شکار ہو جائیں گے۔