اسلام آباد میں پانی کی قلت
آج سے بیس سال پہلے تک اسلام آباد ایک چھوٹا سا شہر تھا جسکی آبادی پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اسلام اباد کے سیکڑ جی ۔ ۵ سے جی ۔۱۱ تک اور ایف سے لیکر آئی تک کُل سیکٹر تھے مگر 2004 کے بعد پراپرٹی ڈیلروں، انویسٹروں اور بیوروکریسی نے مل کر پراپرٹی کی قیمتوں کو حیران کُن حد تک بڑھا دیا۔ 2002 میں جس گھر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ تھی وہ گھرآجکل پندرہ سے بیس کروڑ روپے کے درمیان فروخت ہو رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان میں سٹاک مارکیٹ انتہائی خراب حالات میں ہے اور باقی کاروبار کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں ہیں اسلیے ذیادہ تر افراد میں پیسے رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گو کے ہر شہر میں پراپرٹی کے کاروبار میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر اسلام آباد میں گھر بنانا بڑے کاروباری لوگوں اور سیاستدانوں کا خواب ہوتا ہے۔ ماضی میں جب کراچی، اوربعد میں کے پی کے اور بلوچستان کے حالات خراب ہوئے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد آ گئی۔ موجود حکومت نے پراپرٹی کے کاروبار کو جو مراعات دیں اُس سے بھی اسلام آباد میں پراپرٹی کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہوا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کے اسلام آباد کے ہر کونے میں ہاوسنگ سوسائٹیاں وجود میں آگئیں۔ ان وجوہات کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کی آبادی پچھلے بیس سالوں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ آبادی میں یہ اضافہ کسی پلاننگ کے بغیر کیا گیا جس سے ان دونوں شہروں میں کئی مسائل شروع ہوگئے ہیں۔ ان میں ٹریفک، لا قانونیت کے ساتھ ساتھ پانی کا مسئلہ سب سے بڑا ہے۔
اسلام آباد کا جب منصوبہ بنایا گیا تو اسکے ساتھ دو چھوٹے ڈیم راول ڈیم اور سملی ڈیم بھی بنائے گے۔ کچھ عرصہ بعد میں خان پُور ڈیم کو بھی بنایا گیا مگرسوائے برسات کے ان ڈیموں میں پانی کا زخیرہ عموماً نچلی سطح پر ہی رہتا ہے۔ اسلیے یہ ڈیم موجودہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔ ہاوسنگ سوسائٹیوں نے زیر زمین پانی نکالنا شروع کردیا اسکے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے رہائشیوں نے بھی اپنے گھروں میں بورنگ کروا لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کے زیر زمین پانی کے ذخائر نیچے جانا شروع ہو گئے۔ بعض علاقوں میں تو حالات یہ ہیں کے چار سو فُٹ تک بھی پانی نہیں نکل رہا۔ اس صورتحال میں لوگوں کو شدید مُشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پانی کا مسئلہ G-13 سے لیکر فتح جنگ روڈ اور وہاں سے ٹیکسلا تک ذیادہ گھمبیر ہے۔ بد قسمتی سے اسلام آباد میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے بڑی بڑی بلڈنگوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔ اگرچہ باقی شہروں کی طرح اسلام آباد میں بھی گھروں کی کمی ہے مگر ہر طرف اتنی ذیادہ عمارتوں کی تعمیر کی ضرورت نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں پانی کی قلت کی وجہ سے کئی علاقوں میں صورتحال انتہائی گھمبیر ہونے جارہی ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کے حکومت اسلام آباد میں سوسائٹیوں کے بے جا پھیلاوُ کو روکے اور اسکے لیے مناسب منصوبہ بندی کرے۔ بلڈر حضرات تو گھر بنا کے چلے جائیں گے مگر اس علاقے کے رہائشیوں اور حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مستقبل میں پانی کی کمی کی وجہ سے کئی علاقوں میں گھر تو ہوں گے مگر پانی کے نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقے رہنے کے قابل نہ ہوں گے۔