سوشل میڈیا ایک انتشار؟
سوشل میڈیا نے جہاں لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ وہاں معاشرے میں بہت سے مسائل بھی پیدا کر دئیے ہیں۔ اِس کی دو حالیہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک برطانیہ اور دوسرا بنگلہ دیش ۔ برطانیہ میں ہونے والی چھوٹی بچیوں پر حملہ کے بعد کسی نے ویب سائٹ پر ڈال دیا کہ حملہ آور پاکستانی مسلم ہے اور ایک نام بھی لکھ دیا۔ اس بات کو ایکس (ٹوئیٹر) پر خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا اور اِس کے فورا ً بعد برطانیہ میں ہنگامے شروع ہو گئے ۔ مسجدوں ، دکانوں اور گھروں پر حملے شروع ہوگے اور لوگوں کو مارا پیٹا گیا۔ یہ ہنگامے کئی دن جاری رہے جس نے برطانیہ میں رہنے والے چالیس لاکھ مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی ۔ برطانیہ کی حکومت نے حالات کو قابو کرنے کے لئیے فسادیوں کو گرفتار کر کے فوری طور پر سزا سنانی شرو ع کی تو ہنگاموں میں کمی واقع ہوئی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اِس دوران اصل ملزم جس نے بچیوں کو قتل اور زخمی کرنے کا گھناؤنا کام کیا کا تھا اسکا نام بھی بتا دیا گیا جس کے مطابق اُس کا تعلق روانڈا سے تھا اور اُس کی عمر صرف سترہ سال تھی اور وہ مسلمان بھی نہیں تھا۔ مگر یہ سوشل میڈیا کی طاقت تھی کے ایک پڑھے لکھے معاشرے میں بھی جھوٹی خبریں پھیلاتا رہا کہ قاتل مسلمان ہے۔ ان خبروں کو بنیاد بنا کر سفید فام لوگوں کو اشتعال دلایا جا تا رہا ۔ اب برطانیہ کے اخبارت ایکس کے خلاف بھی کروائی کرنے کا کہہ رہے ہیں۔
دوسری مثال بنگلہ دیش کی ہے جہاں حکومت کی تبدیلی کے فورا ً بعد سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ شروع ہو گیا ہے کہ طالب علموں نے ہندوؤں پر حملے شروع کر دئیے ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی اور اِس کے برعکس طالب علم جماعتوں نے ہندوؤں کے علاقے اور مندروں کی حفاظت شروع کر دی تھی اور اِس بات کا اعتراف ہندوستان کے غیر معتصب جرائد میں بھی کیا گیا لیکن اب مغربی ممالک میں باقاعدہ جلوس نکل رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی نسل کشی روکی جائے اور دوسری طرف سوشل میڈیا میں جھوٹی خبروں کی بھرمار ہے۔ یہ پراپیگنڈہ بنگلہ دیش کی صورتحال کو خاصہ گھمبیر کرسکتا ہے۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیا اب رحمت کی بجائے زحمت بنتا جا رہا ہے اسلیے یہ بہت ٖضروری ہے کہ سوشل میڈیا میں جھوٹی خبروں کو روکنےکے لیے اقدامات کیے جائے اور ایسے افراد کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔