دُنیا سوشل میڈیا کے کنٹرول میں؟
بھارت میں ہونے والے الیکشن کے نتیجہ نے ساری دُنیا کو حیران کر دیا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ بی جے پی سادہ اکثریت سے دو تہائی اکثریت تک لے جائے گی۔ پچھلے دس سالوں میں بی جے پی کے حامیوں نے بڑے بڑے میڈیا ہاؤس خرید لیے تھے۔ جب دسمبر 1922ء میں ایڈانی نے NDTV خریدا تو اُس وقت بھی یہ ہی شور تھا کہ ایڈانی بی جے پی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اور اب اکثریتی میڈیا بی جے پی کے کنٹرول میں چلا گیا ہے اگر میڈیا میں کہیں بی جے پی کے خلاف تنقید ہوتی بھی تو وہ واجبی ہی ہوتی تھی۔ جب ووٹنگ کا مراحلہ مکلمل ہو گیا تو بھی تمام میڈیا ہاؤسز نے ووٹوں کی گنتی سے پہلے بی جے پی کو 350 سے 400 تک سیٹیں دلوا دیں۔
مگراس سارے الیکشن کے دوران ایک 29 سالہ نوجوان دھروو راٹھی نے سوشل میڈیا پر تہلکا مچا دیا ۔ اُس نے یوٹیوب کے ذریعہ بی جے پی کی کمزوریوں کو عوام تک پہنچایا ۔ دھرووراٹھی اتنا مقبول ہوا کہ اُس کے سبسکرائبر کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کے بڑے بڑے نیوز چینلز کی سبسکرائبر کی تعداد تین سے چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ایسے میں ایک اکیلا شخص دو کروڑ لوگوں تک اپنی آواز پہنچا رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے میں اثر ڈالنے کے لیئے بہت بڑی تعداد ہے۔ گو کہ بھارت کی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے۔ مگر چونکہ ایک شخص اوسطا ً دس پندرہ لوگوں سے ملتا ہے چنانچہ اِس صورت میں دو کروڑ افراد ایک اچھا خاصہ اثر ڈال سکتے ہیں۔ عوام دوسری طرف کا نقطہ نظر سُننا چاہتے تھے اور یہ نقطہ نظر دھروو جیسے لوگوں نے عوام تک پہنچایا ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے اب بڑے بڑے میڈیا ہاوس کو کنٹرول کرنے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اب ہر شخص کی آواز اہمیت رکھتی ہے۔
دُنیا میں صرف سوشل میڈیا ہی نہیں تبدیلی لا رہا بلکہ بتایا جاتا ہے کہ اِس وقت انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے والی تجارت یا خرید و فروخت چھ ہزار ارب ڈالر سے زائد ہو چکی ہے اور اگلے تین سالوں میں یہ سات ہزار ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکی ہوگی۔ سوشل میڈیا اور آئی ٹی سے بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں مگر آنے والے دو تین سالوں میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ کسی وقت میں برکت نہیں رہے گی اور اب صبح سے شام ہونے اور وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بعض مذاہب کے مطابق ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کے ذہن یرغمال ہو چکے ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے لوگ سٹلائیٹ، انٹرنیٹ، ٹی وی، سوشل میڈیا اور اے آئیکی بھول بھلیوں میں ابھی سے گم ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا کہ جہاں تک بہت سے فائدے ہیں وہاں بہت سے مسائل بھی ہیں۔ آج کل یہ معلوم کرنا بہت مُشکل ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ عوام میں بے چینی پھیلائی جا رہی ہے۔ جو کہ مایوسی اور ڈیپریشن کا باعث بن رہی ہے۔ لوگ تنہائی پسند ہوتے جار رہے ہیں اور لوگوں کا ایک دوسرے سے ملنا بہت کم ہو گیا ہے۔ صیح خبروں سے ذیادہ جھوٹی خبریں پھیلائیں جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نئی نسل کام پر اس یکسوئی سے توجہ نہیں دے سکتی۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کے کام پر بھی بہت فرق پڑ رہا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیئے کہ سوشل میڈیا بھی ایک اوزار ہے جس سے بہتر کام بھی لیا جا سکتا ہے اور بُرا کام بھی۔ اگر اس کو سوچ سمجھ کر استعمال نہ کیا گیا تو یہ معاشرے کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔