EconomyLatest

پاکستان میں سولر انقلاب: امکانات، چیلنجز اور حکومتی رویہ

پاکستان حالیہ برسوں میں دنیا کے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک بن کر ابھرا ہے جنہوں نے شمسی توانائی کے پینلز بڑے پیمانے پر درآمد کیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے پندرہ ہزار سے بیس ہزار میگاواٹ تک کے سولر پینلز درآمد کیے ہیں جو کہ نہ صرف بجلی کی پیداوار میں خود انحصاری کی طرف ایک بڑا قدم ہے بلکہ ماحولیاتی بہتری کی جانب بھی پیش رفت ہے۔ شمسی توانائی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ صاف ستھری توانائی ہے جو ماحول کو آلودہ نہیں کرتی۔ ایک بار سولر پینلز لگانے کے بعد سالوں تک بغیر کسی اضافی خرچ کے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں سال بھر سورج کی روشنی وافر مقدار میں دستیاب ہوتی ہے، جو کہ اسے سولر انرجی کے لیے ایک آئیڈیل ملک بناتی ہے۔

سولر پینلز کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں کسی بھی جگہ نصب کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ پہاڑی علاقہ ہو یا صحرا، بشرطیکہ وہاں سورج کی روشنی موجود ہو۔ انہیں چلانے کے لیے نہ کسی گرڈ اسٹیشن کی ضرورت ہے نہ ہی کسی بڑی ٹرانسمیشن لائن کی۔ یہ ٹیکنالوجی عام شہری بھی بآسانی استعمال کر سکتا ہے، چاہے وہ ایک کسان ہو یا شہری رہائشی۔ اس کے لیے کسی بڑے معاہدے یا حکومتی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ حکومت اگر چاہے تو مہنگے تھرمل، آئل یا گیس پر چلنے والے بجلی گھروں سے نجات حاصل کر سکتی ہے جو نہ صرف مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں بلکہ ہر ماہ قیمتی زرمبادلہ بھی خرچ کرواتے ہیں کیونکہ ان کے لیے ہمیں تیل، گیس اور کوئلہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔

تاہم حالیہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت اب سولر پینلز کی درآمدات کو محدود کرنے پر غور کر رہی ہے کیونکہ پاکستان میں بجلی کی موجودہ پیداواری صلاحیت تقریباً 45,000 میگاواٹ ہے جب کہ اصل ضرورت صرف 15,000 سے 25,000 میگاواٹ کے درمیان ہے۔ اس وقت بجلی کی اضافی پیداواری صلاحیت بے کار کھڑی ہے اور اس پر سالانہ اربوں روپے کا کیپیسٹی پیمنٹ دینا پڑتا ہے۔ حکومت کا یہ مؤقف ہے کہ اگر سولر پینلز کی تنصیب بڑھی تو بجلی کی تقسیم کا نظام مزید غیر متوازن ہو سکتا ہے۔ مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سولر انرجی طویل المدتی حل ہے جو نہ صرف لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر سکتی ہے بلکہ ماحولیات کو بھی محفوظ بنا سکتی ہے۔

پاکستان نے اب تک تقریباً دو سے تین ارب ڈالر مالیت کے سولر پینلز درآمد کیے ہیں، اگر یہی پینلز پاکستان میں تیار کیے جاتے تو ہم نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بچا سکتے تھے بلکہ دیگر ممالک کو برآمد بھی کر سکتے تھے۔ پاکستان کو چاہیئے تھا کہ غیر ملکی کمپنیوں سے ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے معاہدے کرتا اور انہیں پاکستان میں پیداوار شروع کرنے کی ترغیب دیتا۔ اس سے مقامی صنعت کو فروغ ملتا، روزگار کے مواقع پیدا ہوتے اور ملک ایکسپوٹر بننے کی راہ پر گامزن ہوتا۔

اس سارے منظرنامے میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کی طرف تیزی سے رجحان بڑھ رہا ہے۔ یورپ، امریکہ اور چین جیسے ممالک نے اپنی پالیسیوں میں سولر انرجی کو مرکزی حیثیت دے دی ہے۔ پاکستان اگر اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا تو مستقبل میں مہنگی بجلی، ماحولیاتی مسائل اور زرمبادلہ کے بحران جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے حکومت کو چاہیئے کہ وہ قلیل المدتی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے طویل المدتی فوائد کو مدنظر رکھے اور سولر انرجی کو ایک قومی پالیسی کے طور پر اختیار کرے۔

عوام کی جانب سے سولر انرجی کی طرف بڑھتا ہوا رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ خود اس نظام کو اپنانا چاہتے ہیں۔ اگر حکومت مناسب سبسڈی، ٹیکنیکل رہنمائی اور مقامی سطح پر آلات کی تیاری کو فروغ دے تو پاکستان بہت جلد توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ بجلی کی فراہمی اگر خود انحصاری پر مبنی ہو جائے تو نہ صرف صنعت و تجارت کو استحکام ملے گا بلکہ عام آدمی کو بھی ریلیف حاصل ہوگا۔ سولر انرجی نہ صرف ایک متبادل ذریعہ ہے بلکہ یہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے۔