کیا ہم میں ایک سٹیل مل چلانے کی صلاحیت بھی نہیں؟
ایک حالیہ خبر کے مطابق پاکستان اسٹیل مل کی نج کاری ممکن نہیں کیوں کے سٹیل مل مکمل طور پر سکریپ کا ڈھیر ہو چکی ہے اور اسکو بحال کرنے کی بجائے نئی مل لگا لینا بہت بہتر ہے۔ دوسری خبر کے مطابق کراچی میں مقیم روسی قونصل جںرل نے کہا ہے کے روس اس اسٹیل مل کی بحالی میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے۔ اگر روس یہ بحال کرنا چاہتا ہے تو اِس مل کا کنٹرول بھی روس کو دے دینا چاہیئے۔ روس نے یہ سٹیل مل لگا کر پاکستان کی بہت مدد کی تھی مگر ہماری حکومتوں کی اقربا پروری، نااہلی، کرپشن اور سیاسی لوٹ کھسوٹ کے ذریعہ اسکو کوڑے کا ڈھیر بنا دیا۔
سٹیل مل کسی بھی ملک کی صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ روس نے یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو اسوقت دی جب کوئی بھی یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو نہیں دے رہا تھا۔ لیکن اگر کسی کو اگر وہم ہے کے مستقبل میں بھی یہ حکمران اس کو چلنے دیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پاکستان ہر سال چار ارب ڈالر کے لگھ بھگ سٹیل درامد کرتا ہے۔ پاکستان نے اگر صنت کاری میں اگے جانا ہے تو اسٹیل مل لگانا بہت ضروری ہے۔
آج کے دور میں اسٹیل ملز کی ٹیکنالوجی میں خاصی تبدیلی آ چکی ہے اور اب چھوٹی جگہ پر خاصی بہتر سٹیل مل لگائی جاتی۔ اِس سلسلے میں سب سے بہتر یہ ہی ہے کہ حکومت اس اسٹیل مل اور اسکے عملے کو خیر آباد کہے۔ سندھ حکومت کی نظر پاکستان اسٹیل مل کی زمین پر ہے جو خاصی قیمتی ہو چکی ہے۔ اِس کی نیلامی کر دینی چاہیے اور پرائیوٹ پبلک شراکت کے تحت نئی مل لگائی جائے جس کا تمام کنٹرول کسی اچھی مینجمنٹ کے پاس ہونا چاہیئے۔ حکومت پہلے سے موجود پرائیوٹ سیکٹر میں چلنے والی سٹیل ملز مالکان کو بھی رعایت دے سکتی ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو وسعت دے کر جدید اور مکمل پلانٹ لگا سکیں۔ اِس سے نہ صرف زرمبادلہ کی بچت ہو گی بلکہ ملک کی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ملازمتوں کے مزید مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ حکومت اِس ضمن میں مقامی اور باہر کی کمپنیوں کے درمیان معاہدے میں معاونت بھی کرسکتی ہے اور اسکے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔